اسلام ابتدائے آفرینش سے ہی امن وامان، ظلم و زیادتی سے کوسوں دور، مساوات، نرمی، مصالحت، فرقہ پرستی سے مکمل دوری اور عدل و انصاف کا درس دیتا ہے، وہیں قبول اسلام پر مجبور کرنے سے مکمل طور سے منع کرتا ہے، اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت نمبر 256 میں بیان فرمایا ہے ” کہ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے،
دین میں زور زبردستی اس لیے نہیں ہے کہ دین کا تعلق قلب سے ہے اور قلب پر جبر و اکراہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے؛ گویا اس حقیقت کا اعلان ہے کہ ایمان کا تعلق اپنے قصد و اختیار سے ہے، جبر و اضطرار پر بالکل نہیں ہے، اللہ رب العزت نے پیغمبر علیہ السلام کی زبانی اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے ” آپؐ کہہ دیجیے اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے اب جو سیدھی راہ اختیار کرے گا تو ہدایت اسی کے لئے مفید ہے اور جو گم راہ ہے اس کی گم راہی اسی کے لئے تباہ کن ہے اور میں تمہارے اوپر کوئی حوال دار نہیں ہوں کہ زبردستی مسلمان بنادوں۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے ( ق:45) اے نبیؐ! جو باتیں یہ لوگ بتارہے ہیں ہم انہیں خوب جانتے ہیں، آپ کا کام ان سے جبراً منوانا نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام کا اصول یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات، معاہدات اور مصالحت کو اس وقت تک ختم نہیں کرتا ہے جب تک کہ غیر مسلموں کی طرف سے بدعہدی، خیانت اور فتنہ پردازی سامنے نہ آجائے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے اہل اسلام کا تعلق اور روابط عام طور پر پرامن اور خیر خواہانہ ہونا چاہئے؛ البتہ ان کی بدعہدی، مخالفانہ اقدامات اور مبنی بر فتنہ منصوبہ کا جواب ضرور دیا جائے گا اور یہ سب دائرہ عدل وانصاف میں رہ کر ہوگا، مشرکین عرب سے آپ نے جتنی بھی جنگیں لڑیں سب مدافعانہ تھیں نہ کہ جارحانہ تھیں۔
غزوہ ء خندق میں مشرکین کے تمام قبیلے اہل اسلام پر حملہ آور ہوئے تھے تو اس موقع پر یہ حکم دیا گیا تھا “( توبہ: 36 ) مشرکین سے مل کر لڑیے جیسا کہ وہ آپ سے مل کر لڑتے ہیں۔ اسی طرح یہودیوں کے ساتھ جو کچھ آپ علیہ السلام نے کیا وہ ان کی بدعہدی اور سازشوں کا نتیجہ تھا، ان کو قتل اور جلا وطن کی بھیانک جرم کی سزا تھی۔ اسلام کی اصول پسندی اور انسانیت نوازی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ میدان جنگ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مذہبی پیشواؤں اور جنگ سے بیزار شخص کو بھی قتل کرنے سے منع کرتا ہے تو پھر عام وقت میں قتل و قتال کی اجازت تو دور کی بات ہے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ایک یہودی شخص کا جنازہ گزرا تو آپ علیہ السلام احتراماً کھڑے ہوگئے، کسی نے آپ سے کہا کہ یہ تو یہودی شخص تھا تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا یہ انسان نہیں تھا ؟ یعنی اس کا انسان ہونا ہی اس کے احترام کی دلیل ہے۔ اسلام اپنے متبعین کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے اپاہج، کمزور، بیوہ، یتیموں اور مسکینوں پر اپنے اپنے مال کو خرچ کرے خواہ وہ حاجت مند مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے زمانے میں ایک نابینا معذور ذمی کافر کو مانگتے ہوئے دیکھا تو فوراً یہ حکم دیا کہ اس سے اور اس جیسے معذور افراد سے جزیہ ساقط کردیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس طرح کے بیشمار واقعات اسلامی تاریخ میں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام امن پسند، انسانیت دوست اور حقوق انسانی کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ اب جو ان حقائق سے دانستہ طور پر چشم پوشی کرے گا تو یہ تعصب اور تنگ نظری کا نتیجہ ہی سمجھا جائے گا۔ یورپی اقوام کے اس طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اور این جی اوز اقوام عالم کو یہ باور کرانے کی کوشش اور فکر میں مبتلا ہیں کہ انسانیت کی جو عظمت‘ مقام کی بلندی اور حقوق کی ادائیگی کی فکر ان کے اندر ہے‘ وہ کسی اور قوم کے اندر نہیں۔ وہ یوں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات کے پاس تو اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
مسلمانوں کا دین و مذہب‘ تعلیمات اسلامیہ‘ تہذیب و تمدن‘ اسلامی معاشرہ اور قرآن و سنت انسانیت کے حقوق اور عظمت سے غافل و بے خبر ہیں۔ ان کے پاس تو اس سلسلے میں کوئی آئینی‘ دستوری‘ تعلیمی‘ تہذیبی‘ فکری‘ نظری‘ علمی و عملی سرمایہ نہیں ہے اور آدمیت کے احترام حقوق کا تصور نیا پیدا ہوا ہے۔اس وقت امریکہ جو انسانی حقوق کا بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے اس کا اپنا یہ حال ہے کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جس میں لاکھوں جانیں آن واحد میں لقمہ اجل بن گئیں۔
ہزاروں مکان زمیں بوس ہوگئے اور دونوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ اسی طرح جب مشرقی تیمور کے عیسائیوں کامسئلہ پیش آتا ہے تو اس کی حمایت میں امریکہ‘ اقوام متحدہ اور پورا یورپ کھڑا ہو جاتا ہے اور انسانی حقوق کا اس قدر شور و غل بپا کیا جاتا ہے کہ اس کو آزادی دلا کر ہی چین لیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دیکھیں یہ کشمیر ہے۔ ۳۵ برس سے آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے‘ اس کی قراردادیں امریکہ‘ یورپ اور سلامتی کونسل کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہی ہیں۔
وادی کشمیر مسلسل آگ میں جل رہی ہے۔ خون میں نہا رہی ہے‘ عزتیں لٹ رہی ہیں‘ نہ صرف نوجوان بلکہ بچے‘ بوڑھے اور صنف نازک تک کو عقل و فکر سے بالا اذیتیں اور تکلیفیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے دعوے داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بوسنیا‘ کسووا اور چیچنیا میں جس قدر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے اس کی مثال چشم فلک نے بھی شاید نہ دیکھی ہو۔ آج تک اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ بایں ہمہ پوری دنیا پر سکوت و جمود طاری ہے۔بہرحال اسلام میں انسانی حقوق کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی مثال کسی مذہب و ملت ‘ تہذیب و تمدن‘ اور نظام و دستور میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ ایسے حقائق و مشاہد سے بھری پڑی ہے۔