پاکستان میں ہونے والے توہینِ مذہب واقعات پر ایک نظر

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بھی ملک میں توہینِ مذہب کا کوئی واقعہ پیش آجائے تو کوئی بھی مسلمان مذہب کی توہین کرنے والے کو اُسے قانون کی طرف سے دی جانے والی سزا کا انتظار نہیں کرتا بلکہ اُس انسان کو خود اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کرتا ہے، ایک سچا مسلمان اپنی زندگی میں مذہب کو اپنی ہر چیز حتٰی کہ اپنے خاندان اور اپنی سانسوں پر بھی ترجیح دیتا ہے وہ کسی صورت بھی مذہبی گستاخی برداشت نہیں کرتا، کچھ ایسے ہی واقعات پچھلے کچھ عرصے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملے۔

مارچ 2013 میں 7 ہزار افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے 150 گھروں، 18 دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔

پنجاب میں 2014 میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی۔

اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی صورت میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ اس کی جان چلی گئی، تحقیقات میں توہین مذہب کے الزامات جھوٹے نکلے۔

نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک منیجر کو گارڈ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر گولی ماردی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ گارڈ نے یہ قتل ذاتی رنجش کی بنا پر کیا۔

اسی سال 2020 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے خلاف بھی توہینِ مذہب کے جرم میں کیس فائل کیا گیا، خواجہ آصف نے نیشنل اسمبلی میں خطاب کے دوران اسلام اور دوسرے مذہب کو برابر قرار دیا تھا جس پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما قمر ریاض نے ان کے خلاف توہنِ مذہب کے جرم میں کیس کردیا۔

ستمبر 2021 میں لاہور کورٹ نے اسکول پرنسپل سلمہ تنویر کو سزائے موت سنائی تھی، سلمہ تنویر نے لوگوں میں فوٹوکوپیز تقسیم کی تھی جس میں اُس نے محمد ﷺکےآخری نبی ہونےکاانکارکیاتھا۔

سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو توہینِ مذہب کے جرم میں جب اُن کے ہی محافظ نے قتل کردیا تو پاکستان میں لوگوں کی رائے منقسم تھی کہ اُسے ہیرو مانا جائے یا نہیں، جب 2016 میں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سزائے موت دی گئی تو ان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

یہاں پر بات کی جائے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کی تو پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے مطابق دینِ اسلام کی توہین کرنے والے کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کئی سالوں سے توہینِ مذہب کے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کیسز میں زیادہ تر مسلمانوں کو ہی پکڑا جاتا ہے، نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق 1987 سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے چھے سو مسلمانوں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔

حصہ