کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والے چھٹے کل رکنی اجلاس کی جہاں ملکی سطح پر اہمیت رہی ہے وہاں بیرونی حلقوں میں بھی اسے زیربحث لایا گیا ہے۔
اس اجلاس میں چین کے مستقبل کا ایک ایسا خاکہ تشکیل دیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک جدید ،خوشحال ،ترقی یافتہ ،جمہوری اور عظیم سوشلسٹ ملک کی تعمیر کی جائے گی ،یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اجلاس محض ایک ملکی نوعیت کی سرگرمی نہیں تھی بلکہ اس کے اثرات ملکی سرحدوں سے باہر تک پھیل چکے ہیں۔ کل رکنی اجلاس نے اس باعث بھی عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے کہ سی پی سی کے 100 سالوں میں یہ تیسرا موقع تھا جب ایک تاریخی قرارداد منظور کی گئی۔
بین الاقوامی برادری کے لیےیہ پیش رفت اس لحاظ سے اہم رہی کہ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور چین کی حکمت عملی اور پالیسی سازی کے واضح طور پر عالمی منظر نامے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ،ویسے بھی چین عالمی معیشت کے ایک مضبوط ترین کھلاڑی سمیت اہم عالمی و علاقائی امور میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
اس تاریخی اجلاس نے “گزشتہ صدی میں پارٹی کی اہم کامیابیوں اور تاریخی تجربے پر قرارداد” اور ” کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20ویں قومی کانگریس سے متعلق قرارداد” کو اپنایا۔ اجلاس میں نہ صرف چین کی عصری تاریخ کا جائزہ لیا گیا بلکہ پارٹی کی 100 سالہ تاریخ کا بھی جائزہ لیا گیا تاکہ آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کلیدی قوتوں، ترجیحات اور ممکنہ خطرات کی نشاندہی کی جا سکے۔ بالخصوص قرارداد میں دو اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی کہ “پارٹی ماضی میں کیوں کامیاب رہی؟ اور مستقبل میں کیسے کامیابی حاصل کر سکتی ہے؟”
یہ پیش رفت 95 ملین سے زائد ارکان پر مشتمل سی پی سی کی گورننس میں مزید بہتری لانے کے لیے نہایت اہم ہے تاکہ چین کو ایک عظیم جدید سوشلسٹ ملک میں ڈھالا جا سکے۔اس قرارداد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پارٹی کی اہم کامیابیوں اور تاریخی تجربے کا جائزہ ، آنے والی دہائیوں میں چین کی ترقیاتی سمت کے تعین کے لیے ضروری تھا۔ قرارداد میں عہد کیا گیا ہے کہ پارٹی عوام پر مبنی پالیسیوں پر کاربند رہے گی، “مشترکہ خوشحالی” کا حصول اور عوامی جمہوریت کا فروغ جاری رکھا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عوام ہی ملک کے حقیقی حکمران ہیں۔
انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ترقی کے دوران لوگوں کی فلاح و بہبود پر بھی خاص زور دیا گیا ہے۔یہ تمام عوامل سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سکریٹری شی جن پھنگ کیمرکزی قیادت میں پارٹی کے بنیادی مشن سے ہم آہنگ ہیں اور جس کی جڑیں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کی بنیادی اقدار میں پیوست ہیں۔
چین نے مشترکہ خوشحالی کا مفہوم بڑی حد تک واضح کرتے ہوئے دولت کی منصفانہ تقسیم کیجانب اشارہ کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ رواں صدی کے وسط تک بنیادی طور پر مشترکہ خوشحالی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے گا اور ترقیاتی ثمرات یکساں طور پر سارے چینی عوام کی دسترس میں ہوں گے۔ ساتھ ساتھ ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے حوالے سے پارٹی کی جوابدہی اور ذمہ دارانہ پن ، چین کی فیصلہ کن صلاحیت اور مضبوط گورننس کو مزید ظاہر کرتا ہے۔ یہ چین کی ایک ایسی خوبی ہے جسے نظریاتی تعصب کی وجہ سے چند ممالک نے طویل عرصے سے غلط سمجھا یا پھر اسے نظرانداز کیے رکھا۔
دراصل گورننس کا چینی ماڈل ، جمہوری عمل میں حقیقی عوامی شمولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ اُس مغربی “بیلٹ باکس جمہوریت” سے یکسر مختلف ہے، جو صرف انتخابات کے دوران عوامی شمولیت دیکھتی ہے، لیکن عام طور پر باقی پارلیمانی مدت میں عوامی امنگوں بالخصوص پالیسی سازی کے معاملات پر عوام سے دور رہتی ہے ۔لہذا اسے سیاست دانوں کے درمیان طاقت کا کھیل قرار دیا جا سکتا ہے جس میں ضروری نہیں کہ عوام کی خواہشات کی نمائندگی کی جائے۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا بلاشبہ اپنی بنیادی سوشلسٹ اقدار کو برقرار رکھنے کے جذبے کے تحت چینی عوام کا انتخاب ہے۔چینی عوام کا پارٹی کی گورننس پر اعتماد کا اظہار عالمی سروے رپورٹس کی روشنی سے بھی ہوتا ہے۔ جولائی 2020 میں ایش سینٹر فار ڈیموکریٹک گورننس اینڈ انوویشن کی سروے رپورٹ کے مطابق چینی شہریوں کی اپنیحکومت کے حوالے سے شرح اطمینان نوے فیصد سےزائد رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام کا سات دہائیوں کے بعد بھی سی پی سی کی حکمرانی پر اعلیٰ سطح کا اعتماد برقرار ہے۔
عالمی محاذ پر، چین اب کثیرالجہتی تعاون اپناتے ہوئے دنیا کے ساتھ مزید فعال طور پر منسلک ہو رہا ہے۔چین سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی عوامی مصنوعات کے ذریعے بین الاقوامی برادری کے لیے مزید ثمرات لائے گا۔ آج گلوبلائزیشن کے دور میں بنی نوع انسان کی ترقی اور مستقبل ایک دوسرے سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں ، وبائی صورتحال سمیت دنیا کو درپیش دیگر چیلنجز کے تناظر میں اتحاد و تعاون کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔اس سارے عمل میں چینی فلسفے کی روشنی میں عوام کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے پالیسی سازی وقت کا اہم تقاضا ہے اور یہی اصل معنوں میں عوام دوست جمہوریت ہے۔