میرا کراچی کھو گیا ہے ۔ انکل آپ نے کراچی کو دیکھا ہے کہیں، ایک نوجوان سڑک کے کنارے کھڑا آتے جاتے لوگوں سے عجیب سا سوال کر رہا تھا سر آپ کو پتا ہے کراچی کہاں گیا، جناب ! یہاں ایک شہر ہوتا تھا وہ کہیں کھو گیا ہے.لوگ اس کا سوال سنتے کوئی ہنستا تو کوئی اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا ہوا گزر جاتا۔
ایک بزرگ اس کے سامنے سے گزرے نوجوان نے ان سے بھی یہی سوال دھرایا وہ بزرگ اس کا سوال سن کر رک گۓ اور اس نوجوان کو غور سے دیکھتے ہوئے بولے ہاں بیٹا میں نے دیکھا ہےکراچی ، نوجوان نے مارے خوشی کے بزرگ کا ہاتھ تھام لیا بزرگ نے کہاکہ آؤ سامنے چائے کے ہوٹل پر آرام سے بیٹھ کر میں تمہیں کراچی کے بارے میں بتاتا ہوں ۔
نوجوان بزرگ کے ساتھ ہوٹل میں آکر بیٹھ گیا سب سے پہلے تم اپنا نام بتاؤ بزرگ نے نوجوان سے مخاطب ہو کر کہا ۔میرا نام حمزہ علی ہے اور میں نے اُردو لٹریچر میں ایم اے کیا ہے، بہت خوب اب یہ بتاؤ کہ تم یہ سوال کیوں کر رہے تھے جس سے سب تمھیں پاگل سمجھ رہے تھے . نوجوان کی آنکھوں میں آنسوآگۓ اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا کراچی کی حالت زار دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے یہ وہ کراچی تو نہیں ہے جہاں میں پیدا ہوا پلا بڑھا اسکول کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائی کی صاف ستھرا روشنیوں کا شہر کراچی ہوا کرتا تھا۔
آج اسی کراچی کو کھوجتا ڈھونڈتا پھرتا ہوں تو لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں . تو کیا انھیں کراچی سے پیار نہیں انھیں اس کی بربادی کا دُکھ نہیں بزرگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولے صحیح کہتے ہو بیٹا . کراچی بندر گاہ کا شہر یعنی کما کر دینے والا شہر یہ اپنے ہی نہیں ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کا کھلے دل سے استقبال کرتا اس شہر کی یہ خاصیت ہے کہ یہاں کوئی بھوکا آ تو سکتا ہے مگر بھوکا جا نہیں سکتا۔
ہوٹل ساری رات کھلا کرتے تھے اور ایسے بہت سارے کیفے ہوا کرتے تھے جہاں ادبی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا شعر و شاعری کی محفلیں رکھی جاتیں رات گۓ تک واہ واہ اور ارشاد مقرر کی أوازیں کانوں میں رس گھولتی تھیں فلم انڈسٹری کو عروج بھی کراچی سے ہی ملا سارے مشہور و معروف شاعر ادیب حضرات کا تعلق کراچی سے ہی ہوا کرتا تھا .اسی طرح کراچی کے کھانوں کی دھوم کراچی سے دہلی تک تھی لذیذ اور عمدہ کھانے کراچی والوں کی پہچان تھے اور ہیں مہمان نوازی کراچی والوں کا شیوہ ہے ان کے گھر سے کبھی کوئی بھوکا نہیں جا سکتا .
بزرگ نے ایک لمحے کو خاموش ہو کر اپنی نم آنکھوں کے کنارے صاف کۓ اور دوبارہ گویا ہوئے بس بیٹا پھر پتا نہیں کیا ہوا یہ میرا کراچی بے حس لوگوں کی سیاست کا شکار ہوتا چلا گیا . آۓ دن ہنگامے، ہڑتال ،قتل و غارت گری ، نوجوان بے روزگار ہونے لگے فرسٹریشن بڑھنے لگی جس کا کوئی حل ہی نہیں ملتا آج ہر طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ، کھلے مین ہول ہیں ، بجلی پانی گیس ناپید ہیں بیماریوں کے انبار ہیں اور اس کا سد باب کرنے والا کوئی نہیں تم سہی کہتے ہو حمزہ علی کھو گیا ہے میرا کراچی کھو گیا ہے میرا کراچی۔