مولاناروم فرماتے ہیں کہ اگر میرا علم مجھے ادب نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے۔اسی طرح کے خیالات کا اظہار ارسطو بھی کرتے ہیں کہ ان سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ نے ادب کن سے سیکھا،تو انہوں نے جواب دیا کہ بے ادبوں سے۔سوال کرنے والے نے پھر سوال کیا کہ وہ کیسے؟تو ارسطو نے جواب دیا کہ جو بری حرکات وسکنات بے ادب لوگ کرتے میں وہ چھوڑ دیتا۔اس طرح عمل کشید سے جو علم اور ادب میرے پاس آیا وہ ادب ہی ادب تھا۔
آپ کہہ سکتے ہیں ادب پہلا قرینہ ہوتا ہے حصول علم کا۔لیکن ہوا کیا عصری تعلیم کو جدیدیت کے لبادہ پہنا کر ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ آج کی نسل سمجھ رہی ہے کہ علم ہی سب کچھ ہے۔جب علم کے فوائد و ثمرات سے ہم دنیا وی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں تو ادب کی گنجائش کہاں بچتی ہے۔لیکن یاد رکھئے کہ العلم حجاب اکبر است۔۔۔۔حیات آفریں میں رنگینی تنوع کے دم سے ہے۔
اگر رات نہ ہوتی تو دن کے اُجالے کا مزہ کبھی نہ ہوتا،اگر حیات جاوداں ہی ہوتی تو ہو سکتا ہے زندگی بے کار دکھائی دیتی،صحرائوں کی خوبصورتی پہاڑوں کی وجہ سے اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔سرخ ،سبز کی وجہ سے اور سیاہ ،سفید کے دم سے حسین لگتے ہیں۔گویا اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو لازم وملزوم بنا کر حسن کو اور بھی حسین تر بنا دیا ہے۔لیکن یہ سب عقل والوں اور شعور والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ایسے ہی تعلیم اور تربیت بھی لازم وملزوم ہیں۔یعنی تعلیم کا حسن اصل میں تربیت میں چھپا ہوا ہے۔اگر تعلیم بنا تربیت کے ہے تو اسے آپ گھوڑا تو کہہ سکتے ہیں لیکن ڈربی ریس کا گھوڑانہیں۔ویسے بھی دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں کامیابی کی سیڑھیاں سرعت کے ساتھ چڑھتی ہیں جو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی اتنا ہی زور دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت میں بنیادی امتیاز کیا ہے؟ہم کس طرح سے تعلیم کو تربیت سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں تو سادہ اور عام فہم زبان میں تعلیم،سیکھنے کے عمل کو کہتے ہیں۔یہ سیکھنے کا عمل ہی دراصل تربیت ہے۔گویا اگر صرف تین الفاظ پر عبور حاصل کر لیں تو آپ تعلیم کے اعلی درجے پر فائز ہو جائیں گے۔پہلا لفظ ہے what یعنی کیا؟اگر غور کیا جائے تو یہ کیا۔۔اصل میں علم کی اساس ہے۔اس کیا سے ہی تجسس پیدا ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ تجسس ہی اصل علم ہے اور ملکوں کی ترقی کا راز بھی تجسس میں ہی مضمر ہے۔
دوسرا لفظ ہے why کیوں ؟یہ کیوں ہمیں مشاہدہ کی طرف راغب کرتا ہے،کیونکہ یہ کیوں ہی اصل میں وجوہات کی تلاش پر آمادہ کرتاہے۔وجوہات کی تلاش کی آمادگی کی انتہا علم ہوتا ہے۔اور تیسرا لفظ ہےhow کیسے؟تجربہ کی بنیاد کیسے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔جب یہ تینوں الفاظ کا عملی مرکب تیار ہو جاتا ہے تو اسے تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔
لیکن کیا محض علم کامیابی کی ضمانت ہے؟فی زمانہ بالکل ہے،کیونکہ ان تینوں عوامل کے اتحاد سے جو علم کی اساس کہلاتے ہیں ان کے حصول سے ہی انسان ترقی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ایسی ترقی جس سے آپ تعیشات حیات حاصل کر سکتے ہیں۔زیادہ تر افراد فی زمانہ اسے ہی ترقی خیال کرتے ہیں۔لیکن یہ ترقی دنیاوی ہے اگر ہمارا ایمان ہے کہ اس جہاں کے بعد ایک اور دنیا بھی ہمارا انتظار کر رہی ہے تو یقین جانئے یہ ترقی تربیت کے بنا ادھوری ادھوری سی لگے گی۔
تو پھر ہم تعلیم اور تربیت کو الگ الگ کیسے کریں گے تو میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ تعلیم سے مراد ہے change in behaviour جبکہ تربیت سے مراد ہے positive change in behaviour بس میری رائے میں مثبت سوچ کا فقدان ہی ہمیں تربیت سے کوسوں دور لیتا جا رہا ہے۔اگر قوموں نے ترقی کرنی ہے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی برابر خیال رکھنا ہوگا۔تاریخ گواہ ہے کہ جن قومو ں نے تربیت پر زیادہ توجہ دی ہے آج وہی اقوام ترقی کے اعلی درجے پر قائم ہیں۔
جس کی ایک مثال یورپ کے بہت سے ممالک ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارے پروفیسرز اپنے لیکچرز میں یورپی مفکرین کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔کیوں ہمارے علما اکرام تک یورپی ممالک کی ایمانداری کے حوالے دیتے ہیں۔ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں میں انسانیت بہت ہے اور وہ انسانیت کی بہت قدر کرتے ہیں۔کیوں مصری مذہبی فلاسفر عبدہ نے یورپ کے سفر سے واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے یہاں کلمہ گو تو دیکھے ہیں مگر مسلمان نہیں لیکن یورپ میں میں نے مسلمان دیکھے ہیں لیکن کلمہ گو نہیں۔گویا انسانیت کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جن کی تربیت اعلی اقدار پر ہوئی ہو۔
مولانا روم نے کہا تھا کہ ’’اگر میرا علم انسانیت کا احترام نہیں سکھاتا تو مجھ سے ایک جاہل ہزار درجے بہتر ہے‘‘گویا علم بغیر عمل کیادھورا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو ہمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل پر زور دینا ہوگا،اور یہی عمل اصل میں تربیت کا نام ہے۔
وچ داڑھی اسلام نہ کوئی
بن عملاں قرآن نہ کوئی
جے مکراں تو باز نہ آوے
ملاں جیہاں بے ایمان نہ کوئی
جے کر پا دیوے پٹھی راہے
مرشد جیہا شیطان نہ کوئی
اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ نیک اور بزرگوں میں بیٹھا کرو کیونکہ جیسی محفل ہوگی ویسی ہی عادتیں پختہ ہو جائیں گی۔’’صحبتِ صالح ترا،صالح کند،صحبت طالح ترا،طالح کند‘‘یعنی اچھی صحبت آپ کو اچھا جبکہ بری صحبت آپ کو برا بنا دیتی ہے۔حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ
گمراہ اور فاسق لوگوں میں بیٹھو گے تو تم گناہوں میں دلیر ہو جائو گے،بچوں میں بیٹھو گے تو غیر معمولی سنجیدگی سیکھو گے،بادشاہوں،امرا میں بیٹھو گے تو تکبر سیکھو گے۔تم فقرا میں بیٹھا کرو عاجزی سیکھو گے۔اس لئے جب تک تربیت ِ کامل نہیں ہوتی اس وقت تک علم چہ معنی۔اگر آپ تعلیم کے میدان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو عملی گھوڑے کے شاہ سوار بن جائو کامیابی آپ کے قدموں میں ہوگی۔