وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب نے گزشتہ 11جون کو سال 2021-22 کا وفاقی بجٹ پیش فرمادیا اور حسب روایت اپوزیشن کے شور و غوغا کے باوجود یہ بجٹ پیش ہوگیا اس بجٹ کے تمام حصّوں پر اظہار خیال کرنا مقصود نہیں بلکہ اس میں سے صرف اس حصّے پر بات کرنی مقصود ہے جس کا تعلق غریب طبقے کی آمدنی سے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اسی طرح پیشن میں بھی دس فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے ۔اورملک میں وہ طبقہ جس کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو غیر ہنر مند یا مزدور طبقہ ہے اس کی کم از کم تنخواہ بیس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔
بجٹ پیش کرنے سے پہلے اگر وزیر خزانہ صاحب پیٹرول پمپ پر بھی خود تشریف لے جاتے کسی غریب کے گھر میں چند گھنٹے گزار لیتے کسی سرکاری اسکول اور غیر سرکاری اسکول کا دورہ کرلیتے کسی بچے کی شاندار کامیابی پر بچے کے باپ کے دکھ بھرے تاثرات لے لیتے کہ اب پھر نئی کتابیں، وردی ،سالانہ فیسیں اور جانے کیا کیا اخراجات ادا کرنے کی فکر کیسے اس بچے کے باپ کو کھاتی ہے ۔شاید اس بچے کو آپ یہ مشورہ دے دیں کہ آپ اپنے ذہین بچے کو کسی سرکاری ا سکول میں پڑھا لیتے مگر ملک کے سرکاری اسکول اور سندھ کے اسکولوں کا حال تو آپ کو بتانا ایسے ہی ہے کہ نانی کے آگے ننھیال کا حال ۔مگر یقینا آپ نے بجٹ پیش کرنے سے پہلے ایسی کوئی مشقت والی مشق نہیں کی بلکہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تیار کرنے والوں کے بجٹ کو آپ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں پڑھ ڈالی جس کےاندر مہنگائی کا ایک طوفان ہے جس نے غربت کی چادر کوآپ کے مطابق بننے والی مدینے کی ریاست کو بر طرح ڈھانپ لیا ہے کہ جہا ں والدین اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر یہ طبقہ خودکشیوں پر آمادہ ہوگیا ہے اور اس طرح کی خبریں ملک کے طول وعرض سے آرہی ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ
احساس مرتاہے تو ضمیر بھی مر جاتاہے
یہ و ہ موت ہے جس کی خبر نہیں ہوتی
لیکن اصل مدّعا یہ ہے کہ محترم وزیر اعلٰی سند ھ نے بھی اس پسے ہوئے طبقے کے لیے وفاق کے اعلان سے ایک قدم آگے بڑھ اعلان کردیا کہ سندھ میں کم از کم تنخواہ پچیس ہزار روپے ہوگی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ مجھے احساس ہے کہ یہ بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مطابق نہیں ہے ۔اس کا اطلاق جولائی 2021سے ہوگا اور ساتھ یہ بھی اعلان سامنے آگیا کہ اگر کسی ادارے نے اس سے کم تنخواہ پر کسی کو ملازمت دی یا تنخواہ پچیس ہزار سے کم دی تو ان ادارو ں کے خلاف قانونی کاروائی ہوگی ۔لیکن اس فیصلے کے مہینوں گزرجانے کے بعد کیا ملک کے تمام مزدوروں اور سند ھ کے تمام مزدوروں کی تنخواہیں پچیس ہزار ہوگئیں ہیں ؟ آج بھی سرمایا داردس طرح کے حیلے بہانے کررہے ہیں کوئی عدالت کا رخ کررہاہے ۔پاکستان کا مزدور طبقہ تو ویسے ہیں اتنا کمزور ہے کہ اس کے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں ۔ جہاں پرائیوٹ سیکٹر میں حکومت کے اس اعلان کا کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا وہاں ایسے سرکاری ادارے بھی ہیں جہاں اس طرح کے ملازمین رکھے جاتے ہیں جنہیں کڑی شرائط پرملازمت دی جاتی ہے کام ان سے ڈٹ کر لیا جاتاہے اور تنخواہ ان کو اتنی کم دی جاتی ہے کہ وہ بمشکل اپنا اور اپنے زیر کفالت افراد کا پیٹ بھر سکیں ۔
اور ان ملازمین کی طرف سے ہر طرح کی قانونی چارہ جوئی سے بچنے کےلیے ان کو تو اوّل کوئی ثبوت دیا ہی نہیں جاتا اور اگر دیا بھی جاتاہے تو ان میں ان ملازمین کی ملازمت عارضی دکھائی جاتی ہے ان کی تنخواہ حاضری کی بنیاد پر ہوگی، ان کو کوئی چھٹی کی اجازت نہیں ہوگی، ان کو کسی طرح سے ادارے سے کوئی علاج معالجے کی سہولت حاصل نہ ہوگی انتہا یہ کہ ان کو کسی طرح کی شناخت بھی نہیں دی جاتی ۔برسبیل تذکرہ پاکستان کامشہور اور معروف کراچی ڈاؤمیڈیکل کالج اور یونیورسٹی ہے جہاں ہر طا لب علم کا خواب ہوتاہے کہ کسی طرح وہاں داخلہ مل جائے اس کی وجہ یہاں کا تعلیمی معیار ہے اور اس کا اوجھا کیمپس ہے جہاں اس طرح کے سو سے زائد ملازم کام کررہے ہیں۔یہ ملازمین گریجویٹ اور ماسٹر ڈگریوں کے حامل ہیں۔ یہ یہاں برسوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں نہ ان کی تنخواہوں میں سالوں سے کوئی اضافہ ہواہے اور نہ ہی ان کو کنٹریکٹ پر کیے جانے کا کوئی امکان ہے ۔ان کو اب بھی صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ ایک چیک کے زریعے تنخواہ ادا کی جاتی ہے ۔
شاید ان لوگوں نے اپنی جوانی کا بیشتر حصّہ اس ایک خواب کے سہارے گزار دیا ہے کہ کبھی ان کی بھی باری آئے گی اور ان کو سرکاری نوکری دی جائے گی یا کم از کم ان کو کنٹریکٹ ملازمین کی صف میں کھڑا کیا جائے گا ،ان کو بھی اس ادارے کی شناخت ملے گی ، علاج و معالجے کی سہولت سے یہ بھی بہر مند ہوسکیں گے اور ان کی تنخواہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ہر سال بڑھا کرے گی ۔تعجب کی بات ہے کہ ان باتوں سے اب تک وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ کیسے لاعلم ہیں گویا چراغ تلے اندھیراہے۔جبکہ سندھ مینیمم بورڈ آف ویجز بھی موجود ہے جوکہ اسی کے لیے خاص ہے کہ حکومت کے طے کردہ اُجرتوں کے مطابق تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں یا نہیں اگر نہیں تو اس ادارے کا فرض ہے کہ سندھ کے ایسے تمام ملازمین کی تعداد اور ان کو دی جانے والی تنخواہوں کا مکمل ڈیٹا جمع کرے اور ایسے تمام اداروں سے باز پُرس کرے اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہوتو عدالت میں یہ ادارہ فریق بن کر حاضر ہو کیونکہ یہ تو سندھ کے وزیر اعلیٰ محترم سید مراد علی شاہ صاحب کا خود کا بیان ہے کہ ان تمام اداروں کے خلاف کاروائی ہوگی جو اپنے ملازمین کو کم از کم پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ سے کم دیں گے ۔