الزام تراشی، گناہ کے زمرے میں آتی ہے مگر آج گناہ کی فکر کون کر رہاہے ہاں مگر گناہ پر گناہ ضرور کررہے ہیں ۔ کبھی کوئی حالات کے کا ندھے پر رکھ کر اپنے گناہ کی بندوق چلاتا ہے تو کبھی کوئی اس کے لئے کسی اور کی طرف اشارہ کرتا دیکھائی دیتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کوئی بھی اپنے گناہوں کی تلافی کر نے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور یہاں تک سننے کو مل جاتا ہے کہ جب وقت مقررہ آئے گا تو دیکھی جائے گی ۔ اس دیکھی جائےگی نے ایما ن کی کیفیت تبدیل کر کے رکھ دی ہے اورتو اور معاشرہ کی روش بدل دی گئی ہے ۔ بہت سارے دیگر امور کی طرح یہ بھی خالص خارجی عمل دخل کی بدولت رونما ہوتا جا رہا ہے ۔ دور حاضر میں اس بات سے قطع نظر کہ کل آپ نے کسی سے کیا کہا تھا آج کی بات کے پرچار کو اہمیت ہے ۔ پاکستا ن اور دیگر مسلم ممالک میں مقدس گائے کا تصور بہت عام ہے گوکہ یہ عام فہم نہیں ہے لیکن عوام کسی حد تک اب اس مقدس گائے کو پہچا ننے لگے ہیں ۔
پاکستا ن تحریک انصاف کے وجود میں آ نے کی بنیادی وجہ پاکستا ن میں نظامِ عدل کی زبوں حالی تھی جس کی مکمل بحالی ہی اس جماعت کا تقریباً ایک نکاتی منشور سمجھا جاسکتا ہے ۔ ساتھ ہی تحریک انصاف میں آ تے ہی ریاست مدینہ کی تشکیل کا تصور بھی عوام کے سامنے پیش کیا گیا ۔ پچھلی کئی حکومتوں نے پنج سالہ منصوبے (جو روس کی طرز کا ایک منصوبہ سازی کا طریقہ کار تھا)تو بنائے اور یقینا اوائل میں جب یہ سلسلہ شروع کیا گیا کہیں سن 1955 میں بہت بہترین کام انجام پائے پاکستان دنیا کے اہم ممالک میں شمار کیا جاتا رہا ،لیکن وقت ، حالات اور عوام کی سوجھ بوجھ کیساتھ ساتھ ان منصوبوں میں سے پاکستا ن کی بحالی کا ذکر تو رہا لیکن عملی اقدامات پاکستا ن کو بدحالی کی طرف گھسیٹ کر لے جانے کیلئے کئے جاتے رہے اور منظم سازش کے تحت تقریباً وہاں لا کر کھڑا کردیا گیا کہ جہاں آج پاکستان میں پیدا ہو نے والا بچہ بھی مقروض ہوتا ہے ۔ جہاں انفرادی مفادات اجتماعی مفادات پر ترجیح حاصل کرلیں اور اس سے مستفید بھی ارباب اختیار ہوں تو پھر وہاں صورتحال بدسے بدتر ہوتی ہی چلی جاتی ہے جیساکہ ہم نے اپنے ملک میں دیکھا ہے اور اب جبکہ بہتری کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں تب بھی ان ہی لوگوں کی مزاحمت دیکھنے میں آرہی ہے ۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ قانون سازی نہیں کی جارہی تھی ، بے تحاشہ قوانین پاس کئے جاتے رہے لیکن یہ قوانین بدعنوانیوں کو چھپا نے یا قانونی حیثیت دلانے کیلئے نافذ اعمل کئے جاتے رہے ۔ وقت گزرتا گیا سیر سواسیر ہوتے چلے گئے ملک کے ادارے خسارے میں جاتے رہے لیکن حکمران طبقہ اپنے اداروں کو فائدہ مند بناتے ہوئے ملک سے باہر ساری دولت منتقل کرتے چلے گئے ۔ یہ بھی طے ہے کہ اللہ تعالی نے ہر فرعون کیلئے ایک موسیٰ ضرور پیدا کیا ہے ۔ پاکستان کی سیاست میں ،چند مخصوص جماعتوں کا اثرو رسوخ ہمیشہ سے رہا ہے پھر بدقسمتی سے عوام سیاست کی پیچیدگیوں سے اتنے خوفزدہ رہے ہیں کہ وہ سڑکوں پر نعرے لگانے اور دھماکوں میں مرنے کیلئے تو حاضر ہوجاتے ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ یہ لوگ اب تک ان مفاد پرستوں کی حقیقت کو پہچاننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ویسے تو یہ لوگ اسلامی اقدار کی پاسداری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں دسا جاتا ، لمحہ فکریہ ہے کہ کیا خالق کائنات نے اس قوم کی سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے کے یہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہوئے جارہے ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ ان قوا نین میں ترامیم لائیں جو وقت کی ضرورت کے مطابق یا پھر کم علمی کی وجہ سے تقریبا ً ادھورے ہیں اور نئے قانون لانے کیلئے جو عوام کیلئے قانون کی فراہمی اور ظلم کی غلامی سے نجات کا ذریعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جن میں سب سے اہم ترین شفاف انتخابات کے نظام کیلئے مختلف اصطلاحات کیساتھ ساتھ نظام کو جدید سطور پر استوار کرنا ہے جسکے لئے مختلف سفارشات پیش کی جاتی رہیں جن پر قطعی کان اسلئے نہیں دھرے گئے کہ اس کا فائدہ کسی اور کو ہوجائے گا گوکہ وہ فائدہ ہوکر ہی رہا ۔ درحقیقت چند خاندانوں کا یہ سمجھنا تھا کہ ہمارے علاوہ حکومت کسی اور کو مل ہی نہیں سکتی یا شائد کوئی اور حکومت کر ہی نہیں سکتا ۔ سانجھے داری کا طے شدہ اقتدار تھا جس میں صوبائی حکومتیں اپنی اپنی مرضی کی تھیں اور وفاق میں باریاں لگی ہوئی تھیں عوام کو مختلف قسم کی گولیاں دی جاتی تھیں انہیں سمجھ تو آنا ہی نہیں تھا ۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ جیسے ا ن سے اقتدار چھین لیا گیا (قدرت کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے اور پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں ہے) ۔ پھر کیا تھا جیسے ا ن لوگوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہوکر رہ گئیں سوتے جاگتے ڈراءونے خواب ستانے لگے اور پھر یہ لوگ ایک ایک کر کے بیمار ہوتے چلے گئے ۔
حکومت وقت کے ہر اقدام کی مخالفت، بدقسمتی سے عوام کا جہالت کا بھرپور مظاہرہ جنہوں نے ایسے لوگوں کی ہمیشہ سے ہمت بندھائے رکھی ہے ۔ کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے کی بات کریں تو اسکا تقریباً طر ز حکومت ریاست مدینہ سے جا ملتا ہے ۔ علم و عمل کی بنیاد پر رکھی جا نے والی ریاست کا نام مدینہ ہے اور علم و عمل کا بہترین مظاہرہ کر نے والی ذات ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ہے اور ہمیشہ رہیگی ۔ اگر ہم نے معاشرے سے مساوات کو نکال دیا ہے تو پھر یہ بھی طے ہے کہ توازن کی عدم دستیابی کے باعث معاشرہ تہہ و بالا ہوکر اپنے خاتمے کی طرف پیش قدمی کرنا شروع کردے گاجیسا کہ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔
آج جب ملک کی سالمیت کی خاطر ، ملک کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ، پاکستانیو کیلئے دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کیلئے راہیں ہموار کرنے کیلئے قانون ساز ی کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر بیرون ملک پاکستانیوں کو انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی سہولت دی جارہی ہے تو وہی لوگ جو کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان اپنی اس ڈگر پر گامزن ہو سکے کہ جس کا خواب حضرت علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا جس نظام کی خاطر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی ساری زندگی بھاگ دوڑ میں گزار دی تھی، انتہائی مخالفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان چند افراد سے تو سچ جانئے کوئی گلہ نہیں ہے جو ہر حال میں خوش حال ہیں جن کی نسلیں خوشحال ہیں ،
اصل گلہ تو عوام سے ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ایسے لوگوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ آج جتنی بھی سیاسی جماعتیں جو پاکستان کو بدترین حالات کی بھینٹ چڑھانے میں ہر اول دستے کے طور پر برسرپیکار رہی ہیں سارا کا سارا جرم انکا ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے ملک کو مساوات اور انصاف کی طرز پر استوار کرتے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو آج ہورہا ہے ۔ اس لئے سارا جرم تمھارا ہے ، اور مجرم جو سزا نا دی جائے تو انسانو اور جانوروں میں شائد کوئی فرق نہیں رہتا ۔