خطرہ انسان سے

سعدیہ سات سال کی بھت پیاری بچی تھی جوبھت منت مرادوں کے بعد اپنے والدین کی شادی کے پندرہ سال بعد ان کے انگن میں پری بن کے اتری تھی. اس کے والدین بھت محبت اور شفقت سے اس کی پرورش کر رھے تھے . سعدیہ جب چار سال کی ھوی تو اسے اسکول میں داخل کرایا گیا سعدیہ کے ذھانت کی وجہ سے وہ ٹیچرز کو بھی بھت پیاری ھو گی وہ کبھی بھی اسکول سے چھٹی نہیں کرتی بلکہ بخار میں بھی اسکول چلی جاتی۔

وقت گزرتا جا رھا تھا اسی دوران سعدیہ کی امی بیمار رھنے لگی ان کو گھٹیا کا مرض ھو گیا تھا اس کی وجہ سے چلنا پھرنا مشکل تھا .اسی وجہ سے سعدیہ کو قریبی مدرسہ میں داخلہ کرایا گیا تاکہ وہ اپنے پڑوس کی بچی کے ساتھ چلی جایا کرے کیونکہ اس کے والد تو رات گے کام سے واپس اتے تھے ایسے ھی ایک دن سعدیہ مدرسہ کے لیے تیار ھو کر پڑوس کی بچی کے پاس پھنچی تو اس کی امی نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو بخار ھے اج وہ مدرسہ نہیں جا سکے گی تم واپس گھر چلی جاو سعدیہ کو چھٹی کرنے سے بھت چڑ تھی اس کے معصوم ذھن میں خیال آیا کہ مدرسہ قریب تو ھے اج اکیلی ھی چلی جاتی ھوں ۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ مدرسہ کی طرف چلنے لگی اچانک ایک انکل اسکے سامنے آئے اور اس سے بولے بیٹے آپ کو قریب کی کوئی مسجد پتا ھے میں یہاں نیا ھوں اور مجھے نماز پڑھھنی ھی معصوم ناسمجھ سعدیہ نے کہا جی انکل میں اپ کو مسجد دکھا دیتی ھوں اور وہ اس اجنبی شخص کے ساتھ چل پڑی .مدرسہ کے چھٹی کے وقت سعدیہ گھر نہیں پھنچی تو اس کی امی نے پڑوسن کے گھر کال کر کے پوچھا انھوں نے بتایا کہ اج ان کی بیٹی مدرسہ نہیں گی اور سعدیہ کو بھی گھر واپس جانے کو کہا تھا اب تو سعدیہ کی امی بھت پریشان ھو گی وہ بے چاری خود چل کر جا بھی نہیں سکتی تھی انھوں نے سعدیہ کے ابو کو کال کی اور سارا ماجرا بتایا اسکے ابو نے فوراً آنے کا بول کر ان کی تسلی کرائی وہ آفس سے سیدہے مدرسہ پھنچے وہاں پتا چلا سعدیہ تو آج مدرسہ ائی ھی نہیں اب تو وہ بھی گبھرا اٹھے اور گھر کی جانب بڑھے جھاں سعدیہ کی امی پریشانی کے عالم میں دعا دعائیں کرنے میں مصروف تھیں تھوڑی سی دیر میں سارے محلے والوں کو بھی خبر ھو گی کہ سعدیہ گم ھو گئی ھے۔

سارے محلے والے سعدیہ کے ابو ساتھ مل کر سعدیہ کو تلاش کر رھے تھے پولیس میں بھی رپورٹ کرا دی گی .اور پھر ادھی رات کو پولیس کی جانب سے سعدیہ کے ابو کو محلے سے کافی دور واقعہ کچرا کنڈی پر بلایا گیا کہ آکر شناخت کریں ایک بچی کی لاش ملی ھے اف قیامت صغریٰ کا منظر تھا جب سعدیہ کے ابو کی نظر سعدیہ کے بے جان لاشے پر پڑی سعدیہ کی انکھیں کھلی رھ گی تھیں اور ان میں سوال تھا کہ ابو اس انکل نے تو مجھ سےمسجد کا راستہ پوچھا تھا یعنی ھدایت کا راستہ تو اس نے میری بے حرمتی کیوں کی کیوں میری جان لے لی آپ تو مجھے راستے کے کتوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہے تھے تو کیوں میں ایک انسان کے ھاتوں نہ بچ سکی کیا وہ انسان تھا یا جانور؟