یہ چیخوں کی اواز تھی ! پانچ سالہ رابعہ کی جو اپنے اسکول میں داخلے کے بعد پہلے دن آج اسکول جا رہی تھی اپنی امی کا ہاتھ پکڑے وہ اسکول کی جانب بڑھ رھی تھی کہ اچانک ایک بڑا سا کتا اسکے سامنے آگیا جس کو دیکھ کر رابعہ کی بے ساختہ چیخ نکل گی…… جی یہ مسئلہ ھے عباسی شہید ہسپتال کے اطراف کی ساری گلیوں کا جہاں ھر طرف آوارہ کتوں کا راج ھے فجر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو بھی ان دھشت گردوں کا سامنا کرنا پڑتا ھے.
بزرگ حضرات تو تیزی سے چل بھی نہیں پاتے جو ان سے بچ کے نکل جائیں پھر سات سے آٹھ سال تک کے اسکول جانے والے بچے خوف کے عالم میں اسکول جاتے ہیں کہ ابھی کسی بھی گلی میں ان کے ساتھ کتا پن ھو سکتا ھے افس جانے والے مرد حضرات بھی ان کتوں کا شکار رہتے ھیں جبکہ ان کی گاڑی کی چھت پر اور گاڑی کے نیچے بھی کتے اس شعر کی تفسیر بنے آرام فرما رھے ھوتے ھیں کہ تم کتنے کتے مارو گے ! ھر کار سے کتا نکلے گاـ ان چند ماہ کے دوران ان گلیوں میں تین افراد ان آوارہ کتوں کے کاٹنے کا شکار ہو چکے ھیں جن میں ایک خاتون، ایک بچہ اور ایک میرا اپنا ۲۲ سالہ بیٹا شامل ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ اس علاقے کے عباسی شہید ھسپتال میں ویکسین بھی دستیاب نہیں ہے۔
ویکسین کے ایک ٹیکے کی قیمت ایک ھزار ھے اور پورا کورس پانچ ٹیکوں کا ھوتا ھے یھی ٹیکے سول ھسپتال میں فری لگائے جاتے ہیں مگر ناظم آباد سے سول ہسپتال جانا بھی اتنا سستا نھیں ایک طرف کا رکشے کا کرایہ پانچ سو روپے بنتا ھے اب بتایئے غریب انسان کتوں سے لڑے یا مہنگائی سےآصفہ زرداری صاحبہ کتوں کو مارنےکے حق میں نھیں مگر ان کے دور حکومت میں عام آدمی کی زندگی ضرور کتے والی ھوگئی ھے بھن اصفہ اپ تو ھزاروں گز کے بنگلوں میں رھتی ھیں آپ ناظم آباد کے سارے کتے اپنے گھر کے لان میں لے جا کر پال لیں مگر ھماری اس آفت سے جان بخشی کرا دیں۔