احتیاط علاج سے بہتر ہے

احتیاط علاج سے بہتر ہے، اس مقولے کا مطلب ہمیں کورونا نے بہت اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ڈینگی وائرس ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور اس سے بچائو صرف احتیاط ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہر ڈینگی وائرس کی لپیٹ میں ہیں، ڈینگی وائرس کی شدت کا دورانیہ باقی علاقوں میں اگست سے نومبر لیکن کراچی میں دسمبرتک ہوتا ہے۔ اس وقت مختلف شہروں سے ملنے والی خبروں کے مطابق ڈینگی وائرس کے نتیجے میں اموات بھی رپورٹ ہو رہی ہیں۔

ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق ڈینگی وائرس سیاہ اور سفید دھبے والے مادہ مچھر ایڈیز ایجپٹی سے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد اگست سے دسمبر تک موجود رہتا ہے۔ ایڈیز ایجپٹی مچھر 20 سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں پرورش پاتا ہے یعنی شدید گرمی اور شدید سردی کے موسم میں یہ مچھر مر جاتا ہے۔ایڈیز ایجپٹی مچھر صاف لیکن ٹھہرے ہوئے پانی میں انڈے دیتا ہے جو لاروا کی شکل میں پرورش پاتا ہے۔ بارشوں کے بعد جمع شدہ پانی، بالٹیوں اور مختلف برتنوں میں ذخیرہ کیا گیا پانی یا گھروں کے اندر جمع ہونے والا صاف پانی مچھروں کے لاروا کی پرورش کے لیے موزوں جگہ ہوتے ہیں۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے جنرل سیکریٹری اور ماہر امراض خون ڈاکٹر ذیشان حسین انصاری کے مطابق ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اور ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ صاف پانی جمع نہ ہونے دیا جائے کیونکہ عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ مچھر دانیوں اور اسپرے کا استعمال لازمی کرنا چاہیے کیونکہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں سات سے اکیس یوم لگ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ذیشان حسین انصاری نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پرمچھروں کے خاتمہ کے لیے اسپرے مہم شروع نہیں کی گئی تو ڈینگی بخار وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

ڈینگی بخار کی ابتدائی علامات میں ہڈیوں اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے، متلی اور قے کے ساتھ ساتھ سردرد، جلد پر دھبے، جوڑوں اور پٹھوں میں درد سمیت دیگرعلامات شامل ہیں۔ ڈینگی ہمریجک فیور میں بخار اور جسم میں درد کے ساتھ ساتھ خون کی شریانوں سے خون خارج ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں خون جمنے کی صلاحیت متاثرہوتی ہے۔

ماہر امراض ڈاکٹر قیصر سجاد نے بھی ملک میں بڑھتے ہوئے ڈینگی وائرس کے کیسز پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈینگی وائرس کے تصدیق شدہ کیس تقریباً تمام صوبوں میں ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال بڑی خطرناک ہے اور ہمیں شک ہے کہ یہ وبائی شکل اختیار نہ کر لے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا اس بیماری کے خاتمے کیلئے کوئی ویکسین یا دوا موجود نہیں۔ حکومتی سطح پر سرکاری دفاتر، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں،پارکوں، باغیچوں، گلی، محلوں،بازاروں اور خاص طور پر نرسریوں اور پنکچر کی دکانوں پر روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وائرس کی تشخیص کے لیے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں اچھی لیبارٹریاں قائم کریں اور چھوٹے ہسپتالوں میں کلیکشن سینٹر قائم کیے جائیں۔ صحت مند رجسٹرڈ ڈونرز سے خون کے عطیات، پلیٹیلٹس اور پلازما متاثرہ مریضوں کو مفت فراہم کیا جائے۔

طبی ماہرین نے کہا کہ عوام بھی اپنے گھروں اور اطراف کے ماحول کو صاف رکھیں۔ روم کولر کا استعمال کم کریں۔ آرائشی گملوں، گاڑی کے خراب ٹائر، پارکس یا چھتوں پر کسی بھی برتن وغیرہ میں پانی جمع نہ ہونے دیں۔ ائرکنڈیشنر سے خارج ہونے والے پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست کیا جائے، مچھر مار اسپرے کروایا جائے۔ خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے نیچے اسپرے لازمی کروایا جائے۔ پانی کی ٹنکیوں، بالٹیوں اور پانی ذخیرہ کرنے والے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیں، گھروں کے ارد گرد کھڑے پانی جمع نہ ہونے دیں۔

پانی جمع ہونے والے مقامات پر مچھر مار دوا یا مٹی کا تیل اسپرے کریں۔ مچھروں سے بچنے کے لیے مچھر دانی، میٹ اورمچھر بھگانے والے لوشن کا استعمال کریں۔ بچے اور بڑے پوری آستین والی شرٹ پہنیں اور تیز بخار کی صورت میں انٹی بائیوٹک، انٹی ملیریل یا اسپرین کا استعمال نہ کیا جائے۔ سیلف میڈیکیشن سے گریز کریں اورہمیشہ مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ پانی زیادہ پئیں، مریض کو پانی وافر مقدار میں استعمال کروایا جائے۔ پانی کے علاوہ پھلوں کا جوس، او آر ایس وغیرہ پی سکتے ہیں۔ تاہم بازاری مشروبات اور کاربونیٹڈ ڈرنکس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ متاثرہ مریضوں کو گھر میں بنی یخنی، کھچڑی، دلیہ، زود ہضم، ہلکی اور نرم غذائیں دیں، ڈینگی کے مریضوں کے لیے 7سے 8گھنٹے کی نیند ضروری ہے، ڈینگی کے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے، اس سے قوت مدافت بڑھتی ہے۔

ڈینگی بخار کی صورت میں جسم پر خارش کرنے یا جسم کھجانے اور ٹوتھ پیسٹ کرنے اور دانت صاف کرنے سے گریز کریں۔ ڈینگی وائرس صرف مچھروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے، یہ ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوتا، اگر کوئی عام مچھر کسی ڈینگی کے مریض کو کاٹے تو اس میں بھی ڈینگی وائرس منتقل ہو جاتا ہے اور یہ مچھربھی ایڈیز ایجپٹی مچھرکی طرح ڈینگی وائرس کا سبب بن سکتا ہے۔طبی ماہرین کہتے ہیں ڈینگی وائرس کی علامات کے نتیجے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ایک سے تین ہفتے میں خود بہ خود ٹھیک ہوجاتا ہے، ڈینگی بخار کے نتیجے میں حرارت کم کرنے کے لیے پیناڈول کا استعمال کیا جائے اور اس دوران خون میں سفید خلیوں یا پلیٹی لیٹس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے خون کے بنیادی ٹیسٹ سی بی سی کراتے رہیں اورجب مریض کے جسم میں پلیٹی لیٹس کی تعداد10ہزار سے کم ہونے یا جسم سے خون بہنے کا خدشہ ہو تو اضافہ پلیٹیلیٹس دیئے جائیں۔

طبی ماہرین کہتے ہیں ڈینگی بخار کے نتیجے میں گھریلو ٹوٹکوں سے گریز کریں، پپیتے کاجوس ڈینگی وائرس کا علاج نہیں ہے اور اکثر لوگ پپیتے کے جوس کو علاج سمجھ کر باقی علاج چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مریض کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، البتہ ڈاکٹروں کی جانب سے مریض کوزیادہ سے زیادہ فریش جوس اور پانی پینے کا کہا گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں ڈینگی وائرس سے بچاؤکے لیے علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، اگر مندرجہ بالا بیان کی گئی احتیاط پر عمل کریں تو اس مرض سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔

حصہ
mm
حامد الرحمن کا صحافت سے پرانا تعلق ہے۔طالب علمی کے زمانے میں طلبہ حقوق کے حوالے سے شائع ہونے والے جریدے کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں ،ان دنوں نجی ٹی وی سے وابستہ ہیں۔ ، ان سے رابطے کے لیے ان کا ٹوئٹرہینڈلر یہ ہے۔ @Hamidurrehmaan