ہمارے ایک عزیز شاعر تھے اگرچہ انڈیا میں ہی رہتے تھے آج سے برسوں پہلے مہمان کی حیثیت سے گھر آئے ۔ ان کی بڑی تعریف سنی ہوئی تھی ۔ بس چند ملاقاتوں میں کسی نہ کسی بات پر بہترین حکمت بھرا شعر سنادیا کرتے تھے ۔ میں نئی نئی اسکول میں استاد لگی تھی اور اپنے بچوں کو علم کی اہمیت اور افادیت اکثر بیشتر سمجھاتی رہتی تھی ۔
ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ بھائی صاحب آپ مجھے علم کی اہمیت پر کچھ لکھ کر دیں جو اس کی طلب اس کی رسائی اور اہمیت کو اجاگر کرے اور مجھے خود بھی اور بچوں کو بھی سمجھانے میں مدد ملے تو یقین جانئے انہوں نے اچھی سی لکھائی میں یہ چند اشعار لکھ کر دیئے ۔ آج انکے انتقال کو کئی برس بیت چلے ،
میں نے کئی مرتبہ اپنوں کو یہ اشعار سنائے اللہ پاک انکی مغفرت فرمائے یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور آج جب دوبارہ مجھے پڑھنے کا موقع ملا تو یقین جانئے مجھے یہ اشعار ایک خزانہ لگا جو آپ سب کی خدمت میں پیش ہے ۔ اسکا عنوان ہے ۔
“علم”
۱۔ زندگی میں جہاد علم سے ہے زندگی خوشگوار علم سے ہے
علم ہی ارتقاہ عالم ہے آدمی کا وقار علم سے ہے
دہر میں ظلمت جہالت کا دامنِ تار تار علم سے ہے
طفلِ وہ فخر ملک ملت میں اے خُشا جنکو پیار علم سے ہے
طالب علم ہی تو ہے انور
دل میرا ہمکنار علم سے ہے
بیقراری عقل انساں کو
در حقیقت قرار علم سے ہے
۲۔
گلشنِ عقل کی بہار ہے علم مظہر حسنِ کردگار ہے علم
علم کی ہر ادا نہیں معلوم علم کی انتہا نہیں معلوم
علم روحِ روانِ عالم ہے علم جتنا بھی سیکھئے کم ہے
عقل ہے علم، جسم زیور ہے عقل رہرو ہے علم رہبر ہے
زندگی کی اندھیری راہوں میں ظلمتِ جہل کی پناہوں میں
علم نے وہ دیئے جلائے ہیں آندھیوں میں جو جگمگائے ہیں
علم ایک بے بہا نگینہ ہے علم انساں کی چشمِ بینا ہے
یہ وہ نعمت ہے چھٹ نہیں سکتی دولتِ علم لٹ نہیں سکتی
علم ہی راہنمائے دنیا ہے علم سامانِ بزمِ عقبیٰ ہے
برق تک، آب تک ، ہوا تک ہے
“علم “کی دست رست خدا تک ہے
(انور بڑودوی)