دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی تربیت اور مذہبی تربیت سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، یونیورسل چلڈرن ڈے منانے کا اعلان 1954 میں اقوامِ متحدہ میں کیا گیا۔ ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس کا مقصد بچوں کی عزّت افزائی اور حقوق کی پاسداری ہے، اور دنیا بھر میں بچوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔
ہم ایک مہذب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لیکن بچوں کو اپنے بڑوں کے نارواسلوک، ظلم و زیادتی اور تشدد کا سامنا ہے، آج بھی دنیا بھر میں ہر سال بچوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، جبکہ اس قسم کا سلوک بچوں کی نشونما پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
خوبصورت لفظوں میں بات کی جائے تو بچے جنت کا پھول ہوتے ہیں، جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو کاروانِ حیات آگے بڑھتا ہے اور پھر جب اگلی نسل کی آمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو زمین نئی کروٹ بدلتی ہے اور حالات اور مسائل تقاضا کرتے ہیں کہ اِن مستقبل کے معماروں کو بہتر سوچ اور ذہن کے ساتھ دیکھا جائے، لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے ملک کے بچوں کے ساتھ مخلص ہوں۔
یہ دستورِ زمانہ ہے اور لافانی حقیقت کہ دنیا کی سبھی قوموں کا قیمتی سرمایا بچے ہواکرتے ہیں، اگر آج بچے گود کا کھلونا ہیں تو یہی بچے آگے چل کر مستقبل کے معمار بنیں گے اور زندگی گزارنے کے سلیقے ڈھنگ اور طور طریقے سیکھ کر معاشرے کا حصہ بنیں گے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ان بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جائے کہ اِن کے رگ و شہ میں دین کی روح پھونک دی جائے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہمیت رکھتا ہے اور ماں کی گود کو بچے کی اوّلین درس گاہ کہا جاتا ہے۔
ماں بظاہر تین حرفی لفظ ہیں مگر محبت و خلوص، ایثار وقربانی، بے نیازی اور رحمت و شفقت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، ماں ایک ایسا سائبان ہے جو سورج کی تیز و تند شعاعوں، بارش کے بے رحم تھپیڑوں اور آندھی کے بے لگام جھونکوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہے اور کسی قسم کی لالچ کے بغیر کسی صلے کے بغیر اپنے منہ کا نوالہ چھین کر اپنے بچے کو کھیلاتی ہے۔نومولود کا پہلا حق جو اسکے والدین کے ذمّہ ہے وہ اس کی زندگی اور جان کا تحفظ ہے،
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
ترجمہ: ‘تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی اُسے روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی، بے شک اُن کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔’ (بنی اسرائیل)