نازی ایک امیر گھرانے کی لڑکی تھی جدید زمانے کے لحاظ سے اس کا خاندان بھی تعلیم یافتہ اور ماڈرن تھا۔نازی اپنی خالہ سے بہت متاثر تھی جو کہ ایک ٹک ٹاکر تھی ائے دن نئی نئی ویڈیو اور تصاویر وہ سوشل میڈیا پر ڈالتی تھیں۔نازی محض آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی باپ ایک کامیاب بزنس مین تھا اور ماں بھی زمانے کے مطابق سوشل سرکل میں مصروف رہتی تھی اچھا کھانا ،پہننا، رہن سہن اور ہر چیز کی آسائش تھی نازی کی تربیت گھر کے نوکروں کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی وہ شہر کے بڑے نامی گرامی اسکول میں پڑھتی تھی گھر کے چوکیدار کی بیٹی بھی نازی کی ہم عمر تھی چونکہ چوکیدار کی رہائش کوارٹر میں تھی اس لیے کبھی کبھی اسکی ملاقات سارہ سے ہو جاتی تھی وہ بھی کسی گورنمنٹ اسکول میں آٹھویں کی طالبہ تھی لیکن پڑھائی لکھائی میں پھر بھی اس سے بہتر تھی۔
نازی تو اپنا سارا وقت موبائل فون کے استعمال میں گزارتی تھی اور اپنی خالہ کی ویڈیوز کو دیکھتی رہتی تھی جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی ٹک ٹاکر بننے کا شوق جاگنے لگا وہ بھی ان کی طرح میک اپ کرنے لگی اور ایک دن اس نے خود ہی ٹک ٹاک پر اپنا اکاؤنٹ بنا لیا خالہ کو پتا چلا تو انہوں نے اسے سمجھایا کہ اس کے لئے ابھی چھوٹی ہو ابھی پڑھائی پر توجہ دو۔نازی نے دل میں سوچا کہ وہ اس سے جلتی ہیں اس لیے منع کر رہی ہیں اور نازی نے ان کی بات نہ مانی اور چھپ چھپ کر چند ویڈیوز اس پر ڈال دیں لوگوں کے لائک اور کمنٹس آتے تھے یہ پرسنل ہوتے تھے کوئی دوسرا کمنٹس کو نہیں پڑھ سکتا جب تک کہ ہم خود اپنا موبائل کسی کو نہ دکھائیں خالہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے نازی سے سختی سے بات کی اور کہا کہ تم یہ سب چھوڑ دو اور اس کی ماں کو بھی کہا کہ وہ اسکو کو سمجھائیں۔ ماں سوشل ورک میں مصروف رہتی تھی۔ بیٹی کو تھوڑا بہت ڈانٹا اور بات سنی ان سنی ہوگئی۔
نازی نے ویڈیوز ڈالنی کم کردی۔ لیکن اسکی لوگوں سے دوستی ہو گئی تھی ان لوگوں میں ایک لڑکا فہد بھی تھا اس نے نازی سے موبائل فون پر بات چیت شروع کر دی تھی نازی اب نویں کلاس میں آچکی تھی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی کبھی کبھار سارہ کو اپنی باتیں بتا دیتی تھی کہ میں نے ویڈیوز ڈالی ہیں۔فہد سے بات چیت کرتے ہوئے اس کو ایک سال ہوچکا تھا فہد اس کی بہت تعریف کرتا اس کی تصویریں دیکھتا وہ دونوں راتوں کو گھنٹوں باتیں کرتے۔فہد نے نازی سے کہا کہ وہ ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ تم مجھے اپنی اچھی اچھی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر دو میں تمہیں ماڈل بنا دوں گا اس نے سہانے خواب دکھا کر نازی کو ویڈیوز اور تصاویر بناکر بھیجنے پر راضی کر لیا اس نے یہ ساری باتیں سارہ کو بتائیں تو سارہ نے اسے سمجھایا کہ یہ ٹھیک نہیں اس طرح لوگ لڑکیوں کو بہکاتے ہیں اور یہ سب گناہ کے کام ہیں سارا کی باتیں سن کر وہ غصے میں آ جاتی اور پھر اس سے لڑنا شروع کر دیتی سارہ کو کچھ تصویر اور ویڈیو بھیجنے والی بات پتہ چلی تو اس نے کہا کہ میں تمہاری امی ابو کو ساری بات بتاؤں گی لیکن نازی نے اسے دھمکا دیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہارے والد کو یہاں ملازمت سے نکلوا دوں گی اور گھر سے بھی ۔۔۔اور سارا الزام تم پر ڈال دوں گی سارہ بھی ابھی سولہ سال کی بچی تھی اس کی دھمکیوں سے ڈر گئی اور خاموش ہو گئی۔لیکن مسلسل اسے سمجھاتی کہ اپنی تصویریں کسی کو مت دو پر نازی کو تو مشہور ہونے کا جنون سوار تھا ۔
ایک دن فہد نے اس سے کچھ تصاویر کی بنیاد پر کہا کہ یہ تصویریں میرے ڈائریکٹر کو پسند آ گئی ہیں صبح آ جاؤ میں ان سے ملوا دوں گا،فہد نے نازی کو محبت کے جال میں بھی پوری طرح پھنسا لیا تھا نازی اس پر اندھا دھند اعتماد کرنے لگی تھی امتحانات قریب تھے ماں کو کسی سہیلی کے ساتھ پڑھائی کا بہانہ کیا اور چلی گئی ،فہد نے اس کی کسی سہیلی کے گھر کے باہر بلوایا اور کہا کہ ڈرائیور کو بھیج دو اور کہہ دو کہ وہ رات کو نو بجے آکر یہاں سے لے جائے اس نے ایسا ہی کیا۔ ڈرائیور کے جاتے ہی وہ خود اپنی گاڑی لے کر آیا اور اس میں بیٹھ گئی ایک ہوٹل میں لے گیا نازی وہاں جا کر ذرا گھبرائی تو فہد نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ہے سر ابھی آ جائیں گے اور تمہارا ڈیمولیں گے۔ نازی کو چائے پلائی چائے میں نیند کی گولیاں ملا دیں اور پھر بے وقوف بننے والی لڑکیوں کی طرح اس کی بھی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز بنائیں دو گھنٹے بعد جب نازی کو ہوش ٓیا تو اس کی دنیا ہی بدل چکی تھی فہد نے سے ڈرا دھمکا کر گھر پہنچا دیا گھر آکر نازی نے خود کو کمرے میں بند کرلیا۔
نازی کی ماں اپنے سوشل ورک کی وجہ سے اکثر رات کودیرسے گھرٓاتی تھی اس دن بھی نازی کے گھر آنے کے بعد وہ گھر آئی تو دیکھا بیٹی کمرے میں جا چکی ہے تو سوچا کہ سو گئی ہوگی نوکروں سے پوچھ کر خود بھی آرام کرنے چلی گئی ،اب نازی کی آنکھیں کھلیں لیکن بہت دیر ہوچکی تھی فہد نے اسکی تصاویر دکھا دکھا کر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔نازی کے امتحانات شروع ہوچکے تھے۔لیکن اس کا دل کتابوں میں نہیں لگتا اس نے یہ ساری بات سارہ کو نہیں بتائی لیکن وہ سمجھ گئی کہ کوئی گڑبڑہے۔ایک دن سارہ نے مالکن سے بات کرنے کا سوچا وہ ایک دن وہ ناشتہ کر رہی تھی تو سارا نے مالکن کو سلام کیا اور کہا مجھے آپ سے بات کرنی ہے نازی کے ماں نے بات کاٹتے ہوئے کہا اچھا سارہ تمہیں پیسے چاہیئں۔۔۔ بیٹا فکر نہ کرو اندر رحمت چاچا سے لے لو ان سے جتنے پیسے چاہیئں فیس اور کتابوں کے لئے…اتنے میں نازی بھی آگئی ماں نے اس سے حال چال پوچھا اور باہر نکل گئی آج اسکا پہلا پیپر تھا لیکن اسکو کو فہد نے اتنا بلیک میل کیا کہ نازی نے گھر سے پیسے اور زیورات چرا کر اسےدے دیئے۔
اب وہ دوبارہ نازیہ کو اپنے ساتھ چلنے کا کہہ رہا تھا لیکن نازی اب بہت ڈر گئی تھی، اس نے منع کیا تو فہد نے کہا کہ وہ ساری تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دے گا نازی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے سارے قصے کو سارہ کو بتایا۔ سارے معاملے سے سارہ کو بہت دکھ ہوا، نازی بہت خوفزدہ تھی سارہ کو اپنی امی سے بات کرنے کا کہا آخر کار سارہ نے ہمت کی زبردستی نازی کی امی کو ساری بات بتائی تو انہوں نے اس کا سارا الزام سارہ پر ہی ڈال دیا کہ تم نے میری بیٹی کو غلط راہ پر لگایا ہے اور بہت برا بھلا کہا اسے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے یہ سب تمہاری کہانی ہے ۔تم میری بیٹی پر الزام لگا رہی ہو انہوں نے غصے میں اس کے باپ کو نوکری سے اور گھر سے بھی نکال دیا لیکن انکا ضمیر انکو کچوکے دے رہا تھا۔
دل میں ان کو احساس ہو رہا تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو کس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہوگئی میں نے اس کی تربیت کی ہی نہیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں پھر انہوں نے جاۓنماز بچھائی اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا کی اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگی کہ میں دنیا کی بھیڑ میں اتنی محو ہوگئی تھی کہ اپنی بیٹی کی تربیت بھول گئی اس کے بعد انہوں نے نازی سے بات کی اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی نگرانی میں حل کرنے کی کوشش کی اپنی بیٹی کو بھی تحفظ کا احساس دلوایا لیکن ان سب میں بیچاری سارہ بے قصور تھی وہ اب در بدر ہوگئی تھی جتنی دیر میں نازی کی والدہ کو احساس ہوا وہ اپنے باپ کے ساتھ جاچکی تھی.نازی کی امی نے سارا معاملہ رازداری سے حل کروایا اور اور پھر اپنے خاندان کو لے کر خود بھی دوسرے شہر منتقل ہوگئیں اب ان کی پہلی ترجیح اپنے گھر اور بیٹی کی دیکھ بھال اور اچھی پرورش تھی ۔