بہترین کلام اللہ تعالیٰ کی کتاب اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ ہے ۔ یہی شریعت ، سنت رسولؐ ہے اور اس پر ہی چلنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ آج بھی ہماری بگڑی ہوئی تہذیب کا سدھار سنتِ رسول ؐ اور اتباع رسول پر تاحیات مکمل عمل کرنا ہوگی ۔ اگر ہماری نیت خالص اور ارادہ مصمم ہو تو، ورنہ غیروں کی نقالی اور موجودہ دور کی پر تعش اور خود غرضانہ زندگی میں انسان تنزلی کا تیزی سے شکار ہوتا جارہا ہے ۔ احساسِ ذمہ داری اور احساس خلافت تو دور کی بات اس میں نعمتوں کی شکر گزاری نام کو نہیں ہر وقت ہر جگہ شکوہ شکایات کسی بھی چیز سے مطمئن نہیں خوش نہیں ، بے صبر اتنا کہ ہر معاملے میں اپنے آپ کو سب سے برتر اور دوسروں کو کمتر جان کر بھی خوش ہوتا ہے ۔
گردن اکڑی رہتی ہے مگر ظاہر ہے دل بے چین، روح مردہ ، کسی نہ کسی چیز کا اضطراب اسے ہر وقت بے چین کئے دیتا ہے اور یہ وہی رب کی نعمتوں کی ناشکری اور دنیا کا لالچ اور رب کی تقسیم پر ہمیشہ راضی نہ رہنا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے جب کھیل رہے ہوتے ہیں مل جل کر تو انہیں پہلے معلوم نہیں ہوتا کہ کون بے ایمانی کر رہا ہے اور کون مذاق اڑا رہا ہے ۔ مگر بہت جلد وہ سچائی اور اچھائی جان لیتے ہیں پھر لڑتے جھگڑتے نہیں بلکہ غلط کرنے والے بچے سے ناراض ہو کر اسے سب کچھ دیکر علیحدہ ہوجاتے ہیں اور اس سے مزید کھیلنا نہیں چاہتے ۔ ایسے میں اگر مائیںبہن بھائی انہیں پیار سے سمجھائیں ، سکھائیں غلط نہ ماننے دیں اور بچے کی ضد کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں تو جب ہی اسے احساس ہو جاتا ہے اور پھر زندگی میں کسی کے ساتھ غلط نہیں کرتا لیکن اگر والدین یا متعلقہ لوگ اس کی غلطی کو نظر انداز کرکے دوسروں کے آگے سر چڑھاتے ہیں تو یہی لاڈ پیار میں بچے بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں ۔
آج ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ ایک دو سال کے بچے بھی والدین کے قابو نہیں اور پھر ہر لیول کے بچے موبائل لیکر اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ لگتا ہے کہ والدین ان سے دب رہے ہیں ۔ ان کی مرضی خوشی نہ خوشی کا اس قدر لحاظ رکھتے ہیں کہ خود کو ان کی نظروں میں گرا لیتے ہیں اور کسی حد تک اپنے آپ کو غلام بنا لیتے ہیں اور وہ نادان چڑتے جاتے ہیں ، بگڑتے جاتے ہیں ، بے لگام ڈور ، زبان دراز ہو کر تہذیب کا بگاڑ بنتے ہیں ۔ نہ قرآن سمجھ پاتے ہیں ، نہ سنتوں پر عمل کرتے ہیں ۔ نہ تقویٰ ان کے اندر پیدا ہو تا ہے نہ ہی صبر ، وہ کسی سے شیئر کرنا ہی نہیں چاہتے یہاںز تک کہ رشتہ داروں سے بھی بات چیت بند بعض جگہ تو میں نے دیکھا ہے کہ والدین سے تک بچے بات نہیں کرتے اتنا اپنے آپ کو مصروف دکھاتے ہیں ۔
اس طرح ساسوں سے بہوئیں بات چیت کرنا پسند نہیں کرتیں رسماً دعا علیک سلیک کر لیتی ہیں ورنہ سار ا سارا دن ساسیں یا نندیں گھٹتی رہتی ہیں ۔ اب تو میاں بیوی کو بھی اس موبائل دجال نے علیحدہ کردیا ہے وقت گزرتا جاتا ہے انہیں اسکا احساس ہی نہیں ہوتا وہ لگے رہتے ہیں خرافات میں۔ ابھی کوئی بتا رہا تھا کہ مریض ہیں والو ڈلے ہوئے ہیں ۔ رات چارچار بجے تک موبائل سے لگے ہوتے ہیں اور دوپہر دو بجے صبح ہوتی ہے۔ اسی طرح گھر کے رہن سہن فیشن کھانے پینے کے پکوان اور انداز کتنے غیر فطری ہوتے جا رہے ہیں ۔ لباس ، تہوار، خوشی غمی کے مواقعوں پر کیا کچھ ہونے لگا ہے ؟ بیان سے باہر ہے ، لگتا ہے ۔
دین سے تعلق نہیں نام کے مسلمان ، ہندوئوں اور انگریزوں والے تمام کام ۔ وجہ دین سے دوری ہر کسی کی مجبوری کیونکہ اس کو سمجھنے کیلئے نہ رغبت ہے نہ کوشش!! دین کا ماخذ قرآن ہے ۔ روشنی کا ماخذ سورج ہے جس میں سب کچھ دکھتا ہے ۔ یہ ہماری جسمانی زندگی اور روئے زمین کی بقا کیلئے انتہائی ضروری ہے بالکل اسی طرح ہماری روحانی زندگی جو جسمانی زندگی کے ساتھ ہے اس کا تعلق دین سے ہے اور دین کا ماخذ”قرآن “کتاب الٰہی ہے ۔ یہی قرآن پاک کو ماننا سمجھنا پڑھنا قرأ ت کرنا ۔ گویا تجوید کے ساتھ معنی مطلب مفہوم سمجھنا اور پھر اس پر عمل کرنا اور اپنے عمل کے ذریعے یعنی کردار میں اتار کر نمونہ بن کر مزید آگے پھیلانا ہم پر فرض کیا گیا ہے جس سے ہم وہ حیثیت اور مرتبہ نہیں دیتے ۔ آج دن رات میں ہزار بار موبائل ، ٹی وی وغیرہ تو کھل جاتے ہیں با ر بار پیغامات دیکھ کر جوابات تک دیئے جاتے ہیں ، میسجز پھیلائے جاتے ہیں پھر بھی اس کا وہ تاثر وہ جارہیت نظر نہیں آرہی ہے ۔
جو خود اچھی نیت کے ساتھ صبح شام قرآن کو کھول کر دل لگا کر غور و فکر سے پڑھنے اور سمجھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ہمیں حکم ہے کہ نبیؐ نے جو دے دیا لے لو بس ہمارا کام دین کے اس ماخذ قرآن کو زندگی کا ضابطئہ حیات سمجھ کر سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔ اللہ سے تدبر اور تفکر کی دعا مانگتے ہوئے اس کے عجائبات پر غور کرنے میں زیادہ وقت استعمال کرنا چاہئے تاکہ ہماری زندگی کی گاڑی حیات کے سفر پر صراط مستقیم پر رہے اور اس کی ضرورت اور اہمیت ہمیں ہر کام پر مقدم ہوتا کہ ہماری نسلیں بھی یہی راہ لیں ، بھٹکنے اور بگڑنے نہ پائیں ۔
سورج کی روشنی کی طرح دین کی قرآن کی روشنی ہمارے جسم و جاں کو ایسا منور کردے کہ ایمان کا نور ہر طرف عیاں ہوتا رہے اور دیئے سے دیا جلتا رہے کہ اس کی روشنی پوری نوع انسانی کی مادی ترقیات اور ٹیکنالوجی سے آگے نظر آئے ۔ ہمیں تو ا سی کام اور مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے کہ ہم اس دنیا کی امتحان گاہ میں وہ تمام احکاماتِ الٰہی پر عمل کرتے ہوئے ایسی حیات میں جائیں جسے کبھی موت نہیں جو ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ اسی لئے تو یہ دین کا ماخذ یعنی قرآن ہمارے لئے ضابطئہ زندگی نہیں بلکہ ضابطئہ حیات ہے یعنی
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو