آبیل مجھے مار

سچ یہ ہے کہ میں نے یہ محاورہ بارہا سنا، کسی حد تک اس کا مفہوم بھی سمجھ میں ضرور آیا لیکن صحیح معنوں میں اس کا اصل مفہوم دو تین دن قبل پوری طرح سمجھ میں آگیا۔کوئی ایسی مصیبت یا مسئلہ کا رخ خوامخواہ اپنی جانب موڑ کر لوگوں کی لعنت ملامت اپنے گلے میں ڈال لینے کی مذموم حرکت کو آبیل مجھے مار کہا جاتا ہے۔

ایسا معاملہ جس کا کوئی بھی تعلق میری ذات سے بنتا ہی نہ ہو لیکن میں اس کے دفاع میں ایسے کھڑا ہو جاؤں جیسے وہ معاملہ میرا اپنا ذاتی معاملہ ہو تو دنیا کا حیران رہ جانا تو بنتا ہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ کسی غیر متعلقہ بات پر کچھ اس انداز میں دفاعی شست باندھ لینا جیسے آگر یہ بات درست ثابت ہو گئی تو عزت ہماری خاک میں مل جائے گی بلکہ وہ جھوٹ جو ہم نے گزشتہ سوا تین برس سے پوری دنیا سے چھپا کر رکھا ہوا ہے وہ بھی الم نشرح ہو گیا تو ہم پورے عالم میں کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

حکومتی حلقوں میں آج کل اس بات کے معاملے میں بڑی کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ کسی سابق چیف جج نے کسی اور سابق چیف جسٹس کے متعلق یہ بات کیوں کہہ دی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو اس وقت تک رہائی نہیں ملنی چاہئے جب تک الیکشن 2018 کا عمل پایہ تکمیل تک نہ پہنچ جائے۔ اللہ جانے سابق چیف جسٹس نے ایسا واقعی کہا بھی تھا یا نہیں لیکن نہ جانے کیوں حکومتی حلقوں میں اس سلسلے میں نہایت اضطراب اور بیچینی پائی جا رہی ہے جبکہ سارا معاملہ سابقین سے سابقین کے درمیان کا ہے اور نہ صرف معاملہ سابقین اور سابقین کے درمیان ہے بلکہ عدالت نے اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق جج اور خبر پھیلانے والے ایک صحافی کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ “کیوں نہ آپ پر توہین عدالت کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے”۔

پاکستان کی عدالتوں میں کئے جانے والے فیصلے ہمیشہ سے عدم اطمینان کا شکار رہے ہیں اور عام تاثر یہی پایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں اہم معاملات میں کئے جانے والے فیصلے ہمیشہ کسی نادیدہ طاقت کے زیر اثر ہی کئے گئے ہیں۔ ویسے تو فیصلے جن کے خلاف ہوں وہ ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ گریزاں اور نالاں ہی دکھائی دیئے ہیں لیکن کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جن کو جلد یا بدیر خود فیصلہ کرنے یا دینے والے ججوں نے اپنے منہ سے کہا ہے کہ ہم نے جو بھی فیصلے اپنے وقت میں کئے وہ ریاستی دباؤ سے مجبور ہو کر کئے۔

دباؤ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ کسی کی اپنی زندگی سے لے کر اپنے بیوی بچوں کی عزت و آبرو کی بربادی کا خوف سہما سکتا ہے اور کسی کو لگی لگائی نوکری سے نکالے جانے کا ڈر حق و انصاف کے مطابق فیصلے کرنے سے روک سکتا ہے۔ ایک جج کو حق اور انصاف کے مطابق فیصلے کرنے کیلئے ہی جج بنایا جاتا ہے لیکن انسان کے ایمان کی کمزوریاں اسے درست فیصلہ کرنے سے روک لیتی ہیں اور یوں گناہ گار بے گناہ اور بے گناہ گناہ گار قرار دیدیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں عدلیہ کا کردار اسی لئے عوام و خواص کی نظروں میں قابل اعتبار نہیں رہا کہ وہ عدلیہ پر طاقتور حلقوں کے دباؤ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کر پاتے۔ مارشل لا لگائے جانے کے بعد آئین کی کھلی خلاف ورزیوں کی صورت میں اس کو قانونی شکل دینا، ایل ایف او کو نہ ماننے کی صورت میں یا تو ججوں کا از خود استعفے پیش کرنا یا نکال دیا جانا جیسے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کہ پاکستان کی عدلیہ کسی صورت بھی اپنے فیصلوں میں آزاد و خود مختار نہیں۔

اسی قسم کے بہت سارے کئے گئے فیصلوں کے بعد عوام، صحافیوں، دانشوروں اور صاحب شعور افراد کی جانب سے تو عدالتی فیصلوں کو نشانہ بنایا ہی جاتا رہا ہے لیکن خود سابقہ و حاضر ڈیوٹی ججوں کے اعترافات اور بیانات بھی سامنے آتے رہے، پھر بھی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی عدالت نے ان پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہو۔ اسی طرح سابق جج رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس ساقب نثار کے متعلق بھی ایک الزام لگایا کہ انھوں نے ججوں پر یہ دباؤ ڈالا کہ وہ ن لیگ کے نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن کی تکمیل سے قبل جیل سے رہا نہ ہونے دیں۔ ان کے اس الزام کو عدالت نے چلینج کردیا اور ان کو عدالت میں طلب ہونے اور الزام کو ثابت کرنے کیلئے کہا ہے۔

ایک سابق جج اور سابق چیف جسٹس کے اس معاملے کے بیچ حکومت کا اتنی شدت سے سامنے آنا جیسے ایک سابق جج نے موجودہ حکومت ہی کو مورد الزام ٹھہرا یا ہو، سمجھ سے بالاتر ہے۔ عالم یہ ہے کہ حکومت کی پوری مشینری پاکستان کے عوام کو درپیش سارے مسائل کو پس پشت ڈال کر سابق چیف جسٹس ساقب نثار کے دفاع میں اس طرح ڈٹی ہوئی ہے جیسے اس قسم کی ساری سازش کی منصوبہ بندی پی ٹی آئی اور سابق چیف جسٹس نے مل کر کی ہو۔ معلوم نہیں یہاں چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہے یا بقول غالب “کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے” والا معاملہ۔ مقدمہ چل رہا ہے، دیکھیں حقائق سامنے آتے ہیں یا حسب رویت “دباؤ” اپنا کام دکھا جاتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔