کہتے ہیں کہ بچے پھول جیسے ہوتے ہیں۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پھول کی طرح پیارے اور دوسرا مطلب یہ کہ بچے ذہنی اور جسمانی طور پرحساس،نازک اور نا پختہ ہوتے ہیں۔اس لئے انہیں والدین اور معاشرے کی طرف سے خاص خیال،پیار اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی بھی معاشرے اور فرد کے مستقبل پر بچپن میں کی جانے والی تعلیم وتربیت اور تحفظ کی فراہمی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔زندگی کے ابتدائی حصے میں والدین اور معاشرے کی طرف سے برتی گئی عدم توجہی سے بچے کی شخصیت سازی کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے جس کا بحیثیت مجموعی پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بچے ہمارے معاشرے کا مظلوم طبقہ ہیں۔وہ جہاں کھیل کود،تفریح،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہیں جبری مشقت،اغواء برائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے قبیح معاشرتی افعال کا بھی تسلسل سے شکار ہیں۔ وہ جاگیر اور سرمائے کے تحفظ کے کے لئے بنائی گئی سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے غربت میں پیدا ہوتے ہیں۔ملکی آئین میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن اس پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے نتیجہ ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی بچوں کے لیے غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔
آئے روز بچوں پہ جنسی تشدد اور قتل کی خبریں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ملک میں لاکھوں بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے۔اس طرح کروڑوں بچے طبی سہولیات،خوراک کی کمی اور بھوک کا شکار ہیں۔ سفید پوش طبقہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ان کے بچے فاقوں سے مر جاتے ہیں۔تعلیم بچے کا بنیادی حق ہے مگر تعلیم کا حصول غریب بچوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔اعداد و شمار کے مطابق تقریبا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے بلکہ ان کو محنت مزدوری کی طرف لگا دیا جاتا ہے۔ہمارے سماج میں زراعت،صنعت نیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں بچوں سے مشقت لینا معمولی سی بات ہے۔ہمارے ملک میں لاکھوں بچوں کو نسل در نسل جبری مشقت کا شکار بنایا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ تفریحی سہولیات کی فراہمی،تشدد سے خالی گھریلو ماحول،بالغ عمری میں شادی بچوں کے بنیادی حقوق ہیں جن کی عدم فراہمی کے باعث بچے منشیات کے استعمال،خود کشیاں،گھر سے بھاگنے،دہشت گردی اور بے پناہ دیگر جسمانی،ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔بچوں کی بہتر صحت، اور تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔حکومت وقت کو چاہئے کہ بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی، ذہنی جنسی اور نفسیاتی تحفظ فراہم کرے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو یقینی بنایا جائے۔بچے والدین سے بھی زیادہ ریاست کی توجہ کے حق دارہیں اسی لئے توریاست کوماں بھی کہاجاتاہے نسل نو کی بہترتعلیم وتربیت اوران کی اچھی صحت ہی ریاست کی خوشحالی اورترقی کی ضامن ہواکرتی ہے۔