شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت

ہم انسانوں نے بہت ترقی کر لی ہے اور یہ کہنا غیر مناسب نہیں کہ آج ہم ڈیجیٹل دنیا میں سانس لے رہے ہیں ،ایسے میں درختوں اور پودوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا – درخت اور پودے ہمیں زندہ رہنے کے لئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں ،بلکہ ماحول کی آلودگی کو بھی کم کرتے ہیں جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے ـ

درختوں اور پودوں سے ہم انسانوں کا تعلق بہت گہرا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں کہ ہمارے جزبات سے جڑا ہوا ہے کیونکہ یہ انسان کے بہترین دوست ہیں ـاگرہم اپنےدل کی آنکھ سےدیکھیں تودرخت اورپودےہمیں باتیں کرتے نظر آئیں گے ان کی اپنی ایک خاص مہک ہوتی ہے جو ہماری روح تک سرائیت کر جاتی ہے ـپھران پرلگنےوالےپھول اپنی موجودگی کاخوبصورت احساس جگاتے ہیں جن کو دیکھ کر قدرت کی کاریگری پر رشک آتا ہے – اب پھولوں کے اردگرد منڈلاتی تتلیاں اور پرندوں کی خوبصورت بولیاں ایک حسین سماں باندھ دیتا ہے ـاگر ہم بھنوروں کی مثال لیں تو حیران کن طور پر وہ مختلف پھولوں سے رس اکٹھا کرتی ہے اور اس کو شہد میں تبدیل کرتی ہے –

ہم سب پودوں کی اہمیت سے آگاہ ہیں جیسا کہ ان سے لکڑی ‘ ادویات’ کاغذ’ پھل و سبزیاں وغیرہ کے علاوہ اور کئی حیران کن فوائد ہیں جن سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے ـدرخت سایہ فراہم کرتے ہیں جب بھی ہم تپتی دھوپ سے پریشان ہوتے ہیں تو سب سےپہلے اپنے اردگرد کسی درخت کا سایہ تلاش کرتے ہیں تاکہ سکون میسر ہو سکے ـیہ پرندوں کا مسکن ہیں ـمسافروں کاپڑاؤبنتےہیں ـ یہ درخت اپنے اندر کئی کہانیاں سموئے ہوتےہیں کیونکہ کئی نسلیں ان کے سائے میں کھیلتی ہیں اور یہ ہر بھید سے آگاہ ہوتے ہیں ـ

موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ گنجان آبادی والے علاقوں میں درختوں کو کاٹ کر رہائشی سوسائیٹیاں بنا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے تاحدِ نظر صرف کنکریٹ کی بنی ہوئی بڑی بڑی عمارتیں ہی نظر آتی ہیں اور سایہ دار درختوں کی عدم موجودگی میں دن بہ دن نہ صرف درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے بلکہ فضائی آلودگی میں بھی روز بہ روز اضافہ ہوتاجا رہاہے  ـاسی آلودگی کی وجہ سےسانس کے علاوہ کئی اور بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس نے نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور ہر جاندار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ـ

اپنے اردگرد کے ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے ہمیں کسی بیرونی مدد کی طرف نہیں دیکھنا چاہئیے بلکہ اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے ذاتی طور پر پودے لگانے چاہئیے اور اپنے بچوں کو بھی ترغیب دیتے ہوئے پودوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہئیے ـآج ایک پودالگائیں گے تو آپ کے بچے بڑےہو کر اس کا پھل کھائیں گے ـاسی طرح ہم اپنے گھروں میں سبزیاں اُگا سکتے ہیں جیسا کہ دھنیا’ پودینا’ ہری مرچ’ لیموں’ ٹماٹر ‘ہرا پیاز وغیرہ وغیرہ جو ہماری آج کے دور میں بچت بھی کروا سکتی ہیں اور تروتازہ دھنیا پودینہ بھی استعمال کو مل سکتا ہے ـ اس کے ساتھ ساتھ گھروں میں ہرے بھرے پودے بھی لگ جائیں اور بزرگوں اور بچوں کو ایک مصروفیت بھی مل جائے گی ـاسکے علاوہ بچوں میں احساسِ ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی ـ

ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے ‘ پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہو گا ـ (صحیح بخاری)

موسمی تبدیلیوں اور دن رات بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہم سب کو اپنا کلیدی کردار ادا کرتےہوئے شجرکاری کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئیے تاکہ ہم صاف ستھری ہوا میں سانس لے سکیں ـ

اس زمن میں حکوتی اقدامات کو سراہانا چاہئیے جنھوں نے درخت لگانے کی  مہم کا آغاز کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ 2023 تک 10 بلین درخت لگانے کے ہدف کو پورا کریں گے ـ کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق اگر درخت نہ لگائےگئے تو ملک 2050 تک ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا ـ

جہاں درختوں اور پودوں سے ہمیں بےشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں یہ ہمیں زندگی کا اہم ترین سبق بھی سکھاتے ہیں ـ پودوں کو پھل دار اور تن آور درخت بننے میں بہت طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جو سالوں اور کئی دہائیوں پر محیط ہوتاہےـ اسی طرح ہمیں کامیاب ہونے اور اپنی منزل تک پہنچنے میں بھی کئی سال اور دہائیاں لگ جاتی ہیں لہذا کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے ـ

آج جو ہم اپنے اردگرد بہت سارے گھنے اور مضبوط درخت دیکھتے ہیں اور ان سے فیضیاب ہوتے ہیں وہ ہمارے والدین یا ان کے بھی آباؤاجداد نے لگائے ہوئے ہیں ـ یعنی محنت جس کی بھی ہو کبھی ضائع نہیں جاتی ـ آپ نہیں تو آپ کی آنے والی نسلیں آپ کے لگائے گئے بیج سے فائدہ اٹھائیں گی ـ لہذا بیج بوتے وقت  ہمیں آج کا  نہیں بلکہ آنے والے کل کے فائدے کا سوچنا چاہئیے جو ہماری نسلیں حاصل کریں گی ہمیں اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئیے کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے  ـ