وزیراعظم عمران خان کا ایک مشہور جملہ ہے کہ’ ’ سکون قبر میں ملے گا‘‘ملک کی معاشی دگر گوں حالت اور مہنگائی کے بعد اب ہم یہی سوچتے ہیں کہ واقعی قبر میں ہی سکون ملے گا۔‘
لوگ خودکشی کر رہے ہیں کہ اپنے بچوں کو کہاں سے کھلائیں یا انھیں تعلیم کہاں سے دیں۔ دیہاڑی داروں کی اجرت کم ہو گئی ہے ۔بے روزگاری عام ہے ، یوٹیلٹی بل ہر ماہ بڑھتے جا رہے ہیں ۔ نجی اداروں تنخوائیںہی نہیں ملتیں ، حکومتی ایوانوں کی سیاسی محاذ آرائی میں عام آدمی ہی چکی کے دونوں پاٹ میں پس رہا ہے ۔ ریاست مدینہ کے نام پر لوگوں کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوتا جا رہا ہے ۔ ان بدترین حالات میں پچھلے کئی دنوں سے وزیر اعظم کے ریلیف پیکج کی باز گشت سنائی دے رہی تھی جس سے تسلی ہو گئی تھی کہ شاید مہنگائی کم ہو جائے گی اور زندگی ہمارے لئے آساں ہو جائے گی۔کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم عوام کو مہنگائی سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
یقین جانئیے ہمارے وزیر اعظم صاحب کا یہ کہنا تھا تو دل میں ایک امید سی پیدا ہو چلی تھی کہ ہمارا حکمران وقت کو کس قدر ہمارا خیال ہے لیکن یہ خوش فہمی فوری ختم ہو گئی جب اگلے ہی مرحلے وزیر اعظم نے تاریخی ریلیف پیکج کا اعلان کرتے ہی پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کا عندیہ دیدیا ۔ اورآدھی رات کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔پٹرول کی قیمت میں 8روپے 3پیسے کر دیا گیا۔پٹرول کی نئی قیمت 145روپے 82پیسے ہوگئی۔ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 14 پیسے اضافہ کر دیا گیا،ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 142 روپے 62پیسے ہوگئی۔مٹی کے تیل کی قیمت 6.27روپے اضافے سے 116روپے 53پیسے ہوگئی۔لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 5.72روپے اضافے سے 114.07 روپے ہوگئی۔ وزارت خزانہ نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، اضافے کا اطلاق ہوگیا۔
حکومت وقت کو کوئی بتائے کہ جب پٹرول مزید مہنگا ہوگا، بجلی گیس کی قیمت بڑھے گی تو مہنگائی کیسے نہیں ہوگی ؟ حکومت کے بجٹ اعدادوشمار ناقابل اعتبار ہیں۔، پیکج کے اعلان کے وقت ہی یوٹیلیٹی سٹور پر گھی اور خوردنی تیل 65 روپے لیٹر مہنگا ہونے کا اعلان ہو رہا تھا، ہول سیل مارکیٹ میں چینی 130 روپے کلو سے تجاوز کرچکی ہے، کوئٹہ میں 50 کلو چینی کی بوری میں 270 روپے اضافہ ہوا۔ حالانکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی بارہا یہی کہا کہ وزیراعظم اپنے خطاب میں بڑا ریلیف دیں گے لیکن عمران خان کے خطاب میں کوئی بھی ایسی بات نہیں تھی جسے عوام کے لیے ریلیف قرار دیا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر ہے، وزیرا عظم نے یہ بھی پیش کش کی کی ہے کہ دو خاندانوں نے گزشتہ تیس برسوں میں جو روپیہ اس ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کیا اس کا نصف بھی واپس لے آئیں تو میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آدھی کر دوں گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آدھی کرنے کی راہ میں صرف دو خاندان ہی رکاوٹ ہیں۔ کیا اگر ان کے پیسے ہمیں مل جائیں گے تو ملک میںساری مہنگائی ختم ہو جائے گی۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی معاشی حالات اتنے برے نہیں تھے جو ہمیں ملے۔ قرضہ زیادہ اور تاریخی خسارہ تھا۔ زرمبادلہ ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے شکر گزار ہیں کہ ان کی وجہ سے دیوالیہ نہیں ہوئے۔ ڈالر کی کمی کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا۔ ایک سال ملک کو مستحکم کرتے رہے، پھر کورونا آگیا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی واقعی مسئلہ ہے۔ اپوزیشن کا تو کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہے لیکن میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بیلنس رکھے۔ مہنگائی کا اثر پوری دنیا پر پڑا ہے، بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق کمیوڈیٹیز کی قیمتوں میں پوری دنیا میں 50 فیصد اضافہ ہوا۔ امریکہ اور چین میں بھی مہنگائی بہت اوپر گئی ہے،
جرمنی میں پچاس سال کے بعد قیمتیں بڑھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی نسبت آج بھی پاکستان میں سستا آٹا دستیاب ہے۔ دالوں کے بھی پاکستان میں دیگر ممالک کے مقابلے میں کم نرخ ہیں۔ گھی کی قیمت تقریباً دو گنا ہو چکی ہے لیکن چونکہ گھی اور خوردنی تیل باہر سے منگوانا پڑتا ہے اس لیے اس معاملے میں حکومت بے بس ہے۔وزیراعظم عمران خان کے مطابق ان کی حکومت مہنگائی کے باعث عوام کو درپیش مسائل سے باخبر ہے اور معاشرے کے غریب طبقے کی زندگی بہتر بنانے کیلئے مخصوص اعانت فراہم کررہی ہے۔ تاہم آبادی کے مخصوص حصے کو چھ ماہ کے ریلیف کے عمل کو مثبت گردانتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو یہ کافی نہیں بلکہ حکومت کو کم آمدنی والے طبقے کی زبوں حالی پر بھی خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔
امر واقع یہ ہے کہ تمام تر اعلانات ، اجلاسوں اور عزم کے باوجود حکومت بازار کے نرخوںپر قابو پانے میں پوری طرح ناکامی کا شکار ہے۔خیال رہے کہ پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آٹے کی قیمت میں انیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کوکنگ آئل کی قیمت اڑتیس فیصد بڑھی ہے۔ بجلی بائیس فیصد مہنگی جبکہ گیس سلنڈر کی قیمت میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کی حالیہ لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے مگر متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندان سب سے زیادہ مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال میں ہی بیس لاکھ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔ ملک کی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔کورونا کی عالمی وبا کے دوران حالات بدتر ہوئے ہیں۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق وبا کے دوران پاکستان میں کام کرنے والے افراد کی نصف تعداد کی نوکریاں ختم ہو گئیں ہیں۔ورلڈ بینک نے اپنی پاکستان ڈویلپمنٹ رپورٹ کے ذریعے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے پاکستانی عوام کویہ خبر دی کہ رواں برس مہنگائی کی شرح 8.9فیصد تک جا سکتی ہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی ایک اور قسط ملنے میں تاخیر سے پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی مشکلا ت کی وجہ سے ملکی اور علاقائی سیکورٹی خطرات بڑھ رہے ہیں۔معاشی اصلاحات کا عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 14.31فیصدہوگئی ہے۔حالیہ ہفتے پچیس اشیا ء کی قیمتوں سمیت مہنگائی کی شرح میںمزید1.23فیصد اضافہ ہوا۔یہ سارے اقدامات عام آدمی کو معاشی طور پر مزیدتباہ اور بدحال کرنے کا باعث بنیں گے۔حکومت نے معاشی مشکلات کا حل نکالنے کے سعودی عرب سے کچھ رعائتیں حاصل کی ہیں مگر یوں لگتا ہے ان پیکجز کے اثرات بھی عام آدمی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ ایک جانب کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کیا تو دوسری طرف مافیا نے اشیاء خوردونوش اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کو نا جائز طور پر ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر د یا جس سے ایک جانب عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہو ئی ہے تو دوسری طرف ملک میں آٹے ،چینی ،گھی ،تیل ،سبزیاں،گوشت اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتو ں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا غریب عوام جن کی محدود آمدنی ہے انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کبھی چینی اورکبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے ان کی قیمتوں کوبڑھادیا جاتا ہے تو کبھی بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگ جاتی ہیں جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں حکومت مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لئے سوائے زبانی جمع خرچ یا بیانات دینے کے عملی طور پر کچھ نہیں کر رہی۔