ہم پرائیوٹ اسکول ٹیچرز ہیں ۔ چار بہنیں اور یہ حالات !شکر باپ کا گھر ہے ۔ ماں باپ دونوں اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ۔ بھائی اپنی اپنی جگہ اپنی فیملیوں میں مست ہیں ۔ چار بہنوں میں سے دوبہنیں اور ایک بھابی بیمار ہیں بستر پر ہیں ۔ کبھی ہمارا گھر ٹیوشن کے بچوں سے ہر عمر کے بچوں سے بھرا رہتا تھا ۔ گذر اوقات ہوجاتا تھا ۔ ٹیوشن کے بچے آتے تھے ۔ ہم دو بہنیں پرائیوٹ اسکول میں پڑھانے کے باجود ، اسکول سے آکر رات تک بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے ۔ مگر آہستہ آہستہ اس موذی وبا “کرونا”نے نوکریوں سے بھی رلوادیا ہے ۔ من مانی ، من چاہی تنخواہ دیتے ہیں مرضی سے کام بھی لیتے ہیں ۔ جبکہ ٹیوشن بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور جبکہ مختصر امتحان ہوئے تو برائے نام ٹیوشن کے بچے آئے اور چند بنا پیسے بھی آئے ہم نے ٹیوشن بھی دی اور اپنا پورا پورا کام کیا ۔
مگر اب حالات ہمارے قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں عمریں بھی بڑھتی جارہی ہیں ریٹائرمنٹ کے دن آرہے ہیں کوئی رعایت نہیں ۔ بڑی بہنیں بھابی بیمار بستر پر ہیں اور ہم دوبہنیں کتنا کمائیں کیسے گھر کے بل چکائیں ، گیس ، بجلی ، پانی ، دودھ ، دوائی اور غذائی ضروریات کیسے پوری کریں ؟ آگے تو صحتیں بھی کام نہیں کر رہیں ۔ زندگی بھر کڑھائی ، سلائی ، پڑھائی سب کچھ کرتے رہے ۔ اپنی سی کوشش میں ہمارے سارے مسائل ہمارے وسائل کے حدود میں طے پاجا تے تھے مگر اب بار بار یہی خیال ستاتا جا رہا ہے کہ آگے کمائی کے ذرائع بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں نوکری بھی جو برائے نام تنخواہ پر تھی وہ بھی جانے والی ہے گھر میں تین مریض اور ہزاروں خرچے جو بھی سندھ سے مہمان بیمار پریشان کراچی آتے ہیں ہم بہنوں کے پاس ہی رکتے ہیں ہم انکا خرچہ پانی کرتے اور دیکھ بھال کرتے تھے ۔
پہلے ماں باپ کی برسوں تیمار داری کی “سبحان اللہ” اللہ کا شکر اللہ نے موقع دیا پھر خالہ جان کو اللہ کی مہربانی سے دوا دارو کرکے بیماری میں پوری طرح انکا خیال کیا اللہ کی مہربانی سے وہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔ ابھی پچھلے سال بلکہ اسی سال ایک بہن تین بچوں کو چھوڑ گئی دل کی مریضہ تھی اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ میں سوچتی ہوں کہ میں ایک نہیں یا میرا یہ ایک ہی گھرانہ ایسا نہیں کئی کئی گھرانے اس مشکل کا یعنی شدید مسائل کا شکار ہیں وسائل بنا لاچار ہیں آگے پیچھے کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ دین کی کمی نے سگے خون کو پرایا کردیا ہے ۔ مل جل کر رہنا اور دکھ تکلیف سہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں جس کو اللہ یہ موقع دے کر چن لے جو آخرت کی فکر کرلے ، اللہ اس کی لاج ضرور رکھتا ہے یہ میری ایک غیر شادی شدہ دوست کے حقیقی واقعات ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں ابھی ایک ٹیوشن کا بچہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں۔ کاروبار نہیں ، بچوں کو کھلائیں ، پلائیں یا ٹیوشن پڑھائیں ۔ اس طرح بچے مزید سائیکو ہوتے جارہے ہیں ۔ جن کے پاس موبائل ہیں ا ن کے بچے مزید بگڑ رہے ہیں کہ ان کے ماں باپ نے انہیں ایک بری ایکٹیوٹی دے کر اپنی جان چھڑائی ہے مگر مستقبل کیسے انکا بچا پائینگے؟
دین سے بے بہرا اور دنیا میں دنیا کی مصروفیات میں مست والدین بچوں کی اصلی تربیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ ہم تو سب سمجھتے ہیں بچوں کے اُ ن والدین کے روئیے دیکھتے ہیں ۔ خود اپنا کوئی ٹھکانا نہیں آگے کیا کریں کیسے مسائل کو کن وسائل سے حل کریں ؟ نہ اب سلائیاں کرسکتے ہیں نہ بنائیاں نہ ہی اس گیس ، بجلی او ر پانی اور کرونا کی صورتِ حال میں روٹیاں ہی پکا کر کچھ کمائی کرسکتے ہیں ۔ حکومت سے مایوس عوام حکومت کو کیا مشورہ دے ؟ ایسے حالات میں تو ان تمام پرائیوٹ اداروں کے اساتذہ کو مخصوص آمدنی دینی چاہئے اور ان غریب لوگوں کے گھروں کی حکومتی سطح پر نہ صرف کفالت کرنی چاہئے بلکہ صحت کیلئے بھی انکا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ بڑی بیماریوں ، کینسر اور دیگر امراض ِ قلب یا کرونا ہی کا علاج لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے تو کیا وسائل بنا یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں ؟ مخیر حضرات تو خبروں میں نظر آتے ہیں دکھائی کہیں نہیں دیتے ۔
ہمیں اب بھی اپنے رب کی ذات سے پکی امید ہے کہ وہ ضرور ہمیں عزت کی روٹی دینے کا انتظام کرے گا اور ہماری خودداری کو آنچ نہ آنے دیگا وہ ذات تو بڑی غیور ہے اور قدر دان بھی لیکن سوچنا ہمیں اور ہماری حکومت کو بھی ہے کہ کس طرح دانشمندی سے اس طرح کی فیملیوں کو سفید پوشی برقرار رکھی جائے ۔ مسائل کا پرسکون حل دیا جائے نا کہ مسائل کا شکار کرکے مزید جینا اجیرن کیا جائے ؟ اسلامی ملک کے تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور قوم کا سربراہ قوم کا خادم نہ کہ صرف حاکم!!! کوئی کسی کیلئے تکلیف کا باعث نہ ہو ، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے تو پھر یہ کیسا نظام ہے؟ کہ کسی کی اذیت اور تکلیف کو محسوس بھی نہ کیا جاسکے ۔ اس طرح تو مظلوم جنم لیتے رہیں گے اور انکی ہائے ، انکی پکار کبھی خالی نہیں جائے گی ۔ ایسی سوچ بھی ہمیں ہی رکھنی چاہئے ورنہ یہ جینا کیسا جینا؟ یہ تو خود غرضی ہے ۔
بربریت ہے خود اپنی ہی عوام پر تشدد ہے ۔ اس “کرونا”وبا کا شروع میں تھوڑا اثر لیا ۔ کچھ نہ کچھ کیا اور پھر وہی لوٹ مار کہیں کوئی کنٹرول نہیں ، اللہ کی پناہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے وسائل کے قیمتی ہونے کا شعور دے اور انہیں تحفظ سے استعمال کرنے اور مسائل کے حل کیلئے بہترین طور پر تحفظ کے ساتھ استعمال کرنے کا موقع دے ہمت طاقت دے کہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے رہیں کسی کے محتاج نہ ہوں ۔ حکومت کے بھی نہیں ، صرف اپنے رب کی ذات کے ، کہ وہی سب سنبھالنے والا اور دلوں کے حال جاننے والا ہے ۔ ہماری کمائیوں میں ، محنتوں اور صلاحیتوں میں اتنی برکت ہے کہ ہمیں کسی کا منہ دیکھنا ہی نہ پڑے ۔ مسلمانوں میں سچا جذبہ انسانی دے اور احساسِ ذمہ دارے دے کہ ہم ایک دوسرے کیلئے جان دینے کے قابل ہوں ، جان کو وبالِ جان بنانے والے کبھی نہ ہوں ۔ آمین