مڈل کلاس

ٓآپا بانو قدسیہ کا فرمانا ہے کہ ’’مڈل کلاس لڑکی کو بدنامی کا بڑا ڈر ہوتا ہے یہ عشق نہیں کرتی،شوہر تلاش کرتی ہے‘‘۔شائد اسی پس منظر میں یہ سماجی رویہ بن گیا ہے کہ مڈل کلاس عورت پر جوانی نہیں آتی وہ پیدا ہوتے ہی بوڑھی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں جیسے گریڈ 16 ملازمین کو نہ افسر شاہی میں شمار کیاجاتا ہے اور نہ شاہوں کے وفاداروں میں،افسرانِ بالا انہیں جوتے کی نوک پر اور ماتحت انہیں بس ایک ماتحت۔گویا افسران اور ماتحتی کے درمیان ایک حد فاصل کہ جس سے درجہ اوپر ’’نوازے‘‘جانے کی جنت اور ایک درجہ نیچے مصائب و مشکلات کی جہنم ہو۔

گویا نہ HE اور نہ SHE میں بس اوئی اوئی۔ایسے ہی پاکستان میں مڈل کلاس ایسی کلاس ہے جس کی کوئی کلاس نہیں ہوتی بلکہ ان کی ہر کوئی کلاس لے لیتا ہے۔یعنی لوئر مڈل کلاس میں جائیں تو’’ان کا غریبوں میں کیا کام‘‘اور اپر کلاس میں جائیں تو ’’اوہ آگیا نو دولتیاں‘‘۔جو بھی ہو مڈل کلاس کے لوگ کبھی ہمت نہیں ہارتے،جب بھی ہارتے ہیں دل ہی ہارتے ہیں۔جوا اس لئے نہیں ہارتے کہ کبھی کھیلتے ہی نہیں۔غریب طبقہ انہیں امیر سمجھتا ہے جبکہ امیر انہیں کسی کھاتے میں نہیں لکھتے۔گویا مڈل کلاس سینڈ وچ میں لگا وہ مائونیز ہے جو دونوں سلائس کے پریس ہوتے ہی اپنی شکل و صورت تبدیل کر کے اطراف سے ایسے بہنا شروع ہو جاتا ہے جیسے موسم گرما میں غریب بچے کے سر پر لگا سرسوں کا تیل ایسے’’چوتا‘‘ ہے جیسے سے نہیں کولہو سے بہہ رہا ہو۔مڈل کلاس کو اردو میں متوسط طبقہ اور درمیانی طبقہ بھی کہا جاتا ہے۔درمیانی طبقہ سے ہرگز مراد ’’وہ‘‘والا درمیانی طبقہ نہیں بلکہ اس سے مراد درمیانی ہی لیا جاتا ہے۔

مڈل کلاس کون ہوتے ہیں ؟

یہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی پر قابض ایسے لوگ ہیں جو شیمپو کی خالی بوتل میں سرسوں کا تیل ڈال کر اس وقت تک استعمال کرتے ہیں جب تک بوتل میں سوراخ نہ ہو جائے۔توٹھ برش آگے سے ٹوٹ جائے تو ’’نالا پانی‘‘پیچھے سے ٹوٹ جائے تو خضاب لگانے کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ٹوٹھ پیسٹ آخری جھٹکوں پر ہو تو انہیں موٹر بائیک کے ٹائر کے نیچے رکھ کر اس میں سے پیسٹ نکال کر ایسے فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہیں جیسے ٹیپو سلطان کی نسل سے ہوں۔توٹھ برش کے دیگر استعمالات میں لیپ ٹاپ کے کی بورڈ کی صفائی،نیل اور زیور کی صفائی کے علاوہ کبھی کوٹ برش نہ مل رہا ہو تو ٹوتھ برش سے ہی کام چلانے والوں کو مڈل کلاسئے کہتے ہیں۔گھی کی بالٹی خالی ہو تو نہانے والی بالٹی بنا لیتے ہیں اور اس بالٹی کی جان بھی تب چھوڑتے ہیں جب بالٹی کی جان پر بن آتی ہے یعنی جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیابس جھولی کی جگہ بالٹی لگا لیں۔

گوشت ہمیشہ ایک ساتھ پانچ کلو لاتے ہیں تاکہ رشتہ داروں پر رعب رہے۔یہ الگ بات کہ پانچ کلو مہینہ کے تیس دنوں میں تقسیم کر کے اس کے لفافے بنا کر ان کے اوپر دنوں کے نام لکھ کر فریج میں ایسے دفن کر دیتے ہیں جیسے کہ مردہ دفنا دیا ہو۔گوشت بھرے لفافوں کو فریج میں ایسے تہہ در تہہ رکھتے ہیں جیسے دوکاندار نے نالے پراندے جوڑ کر رکھے ہوں۔اتفاق سے اگر دو تین دن گوشت بنانا بھول جائیں یا قصدا نہ بنائیں تو سب سے نیچے والا چھاپر بول پڑتا ہے کہ خدا کے لئے مجھے نکال لو وگرنہ میں ’’ٹھنڈ سے دوبارہ مرجائوں گا‘‘۔مڈل کلاس کے لوگوں میں ایک کمپلیکس ضرور ہوتا ہے کہ گیراج میں گاڑی ضرور کھڑی ہو یہ الگ بات کہ گاڑی کو گیراج سے دو ہی صورتوں میں باہر نکالتے ہیں ،گھر کا کوئی فرد بیمار ہو یا گاڑی خراب ہو۔

مڈل کلاسیوں کے گھروں میں اے سی ہوتا ضرور ہے مگر بہو کے جہیز کا۔اے سی تب ہی چلتا ہے جب بہو کے میکے سے کوئی مہمان آیا ہو،وگرنہ ائیر کولر چلا کر سبھی سسرالیے بہو کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ تیر برساتے ہوئے کہہ رہے ہوتے کہ ماشااللہ ہمارا کولر کوئی اے سی کم ہے کیا؟ہمارا کولر کمرہ کیا دشمنوں کا کالجہ بھی ٹھنڈا کر دینے کے لئے کافی ہے۔مڈل کلاس کے لوگ کاٹن اور لٹھے کا سوٹ پہن لیں تو جلدی بیٹھتے نہیں مبادا کریز نہ پڑ جائے۔مہنگا موبائل لے لیں تو صاف کر کر کے ایسے سکرین گھسا لیں کہ جیسے ’’کھسریاں گھر منڈا ہو جاوے تے چم چم مار دیون‘‘۔

مڈل کلاسیوں کے پاس اے ٹی ایم کارڈ ضرور ہوتا ہے لیکن ایک وقت میں پانچ سو سے زائد رقم نہیں نکلواتے کہتے ہیں کارڈ کا کثرت سے استعمال کارڈ کے خراب ہونے کا باعث ہو سکتا ہے۔یعنی نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔میرے ایک مڈل کلاس میوزک پسند دوست نے گیٹار خرید لیا مگر آج تک بجایا نہیں کہتا ہے اس کے تار بڑے نازک ہوتے ہیں کہیں ٹوٹ ہی نہ جائیں۔اب ایسا بھی نہیں کہ سبھی مڈل کلاس کے لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں میرا ایک اور ایسا ہی دوست اپنی پوری تنخواہ ایک ساتھ ہی نکلوا لیتا ہے۔ایک دن میں نے ہمت کر کے اس کی ہمت کی داد دینا چاہی تو فورا بول پڑا،یار بار بار اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال سے اس کے گھسنے کا چانسز زیادہ ہو جاتے ہیں اس لئے میں نہیں چاہتا کہ مدت المیعاد کے خاتمہ سے قبل ہی کارڈبے کار ہو جائے اور مجھے نئے کارڈ پر نئے سرے سے پیسے خرچ کرنے پڑ جائیں۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مڈل کلاس تو شیخوں کے بھی باپ ہوتے ہیں۔گویا سو شیخ ماریں تو ایک مڈل کلاسیہ پیدا ہوتا ہے۔

رشتہ داروں میں کوئی شادی آجائے تو ادھار اٹھا کر منہ لال کر لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ منہ لال کرنا کالا کرنے سے بہتر ہے۔بعد ازاں اس ادھار کو چکانے کے لئے محلہ میں کمیٹی ڈال لیتے ہیں،بعض اوقات تو کمیٹی نکلنے کے بعد ایک اور کمیٹی ڈال لیتے ہیں کہ یک مشت پیسے خرچ کرنے سے کہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ آجائے۔کچھ مڈل کلاسئے تو ہارٹ اٹیک کو بھی اس لئے برداشت کر لیتے ہیں کہ چلو کچھ آ ہی رہا ہے جا تو نہیں رہا۔

جو بھی ہو صاحب ایک بات کنفرم ہے کہ پاکستانی معیشت اور سیاست ہمیشہ مڈل کلاس کے گرد گھومتی ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو یہ سیاست اور معیشت کو گھما کے رکھ دیتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔