عدالت کے باہر لگے مجسمے پر کبھی غور ہی نہیں کیا لیکن جب غور کیا تو سب سمجھ لیا، آنکھوں پر بندھی پٹی سے اندازہ ہوگیا کہ قانون اندھا ہے اس کو کچھ دیکھائی، سوجھائی اور سنائی نہیں دیتا (صرف مظلوموں و غریبوں کی حمایت میں) بس اپنی ہی اپنی کہتا۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی جو ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ کہنے کو تو بہت مسائل ہیں اس شہر کہ لیکن آج کل اور پچھلے کئی سالوں سے یہاں جائز اور ناجائز تجاوزات وعمارتیں گرانے کا جو عمل جاری ہے وہ اب ناقابل برداشت ہو رہا۔کس طرح لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی جمع پونجی گھر بنانے پر لگا دیتے ہیں اور بعد میں پتہ لگتا کہ یہ تو ناجائز تعمیرات ہورہی تھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ عمارات راتوں رات تو نہیں بن گئی تھی اور سب سے مزاح خیز بات الہ دین پارک اور اس متصل سوشل کلب جو ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے تھے،اچانک ناجائز ھوگیا اور اس کے ساتھ بنتے فلیٹ رائل پارک (معذرت جس کے بلڈر سے کروڑوں روپے رشوت لی گئی، مقدمہ ختم کرنے کے لیے) اس کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔سارے شہر کی ناجائز تعمیرات کیا جنوں نے بنائی جو ایک دن میں تعمیر ہوگئی اور کسی کو نظر نہیں آئی ۔
سپریم کورٹ نے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے پچھلی تمام مثالوں میں بھی ترقی کر لی ہے،کرپٹ اور بد دیانت لوگوں اپنے سائے میں جگہ دے دی ھے کہ کرو خوب کرو بے ایمانی اور کریپشن کوئی مائی کا لال تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا ،چیف جسٹس صاحب بہت معذرت پوری شاہراہِ فیصل پر ہمارے بہادر جوانوں کا قبضہ ہے،قائد اعظم یونیورسٹی کے اندر ان کے بنگلے ہیں،انصاف کریں تو سب کے ساتھ کریں اور ایک جیسا کریں،”ڈریں دوسرے جہاں کی عدالت سے جہاں کوئی ایک دوسرے کے کام نہیں آئے گا۔
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جاں دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی دیکھ لے گا”۔