۱۹ ویں صدی کے اختتام پر ہندوستان میں پنجاب کے ضلع گورداس پر تحصیل قادیان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی بن مرزا غلام مرتضی قادیانی نے بتدریج اپنی خانہ ساز نبوت کا اعلان کیاتو اس وقت اکابرین اسلام اور علماء و مشائخ نے خم ٹھونک کر اس فتنہ کی سر کوبی کا ملی فریضہ سر انجام دیا۔
ان محسنین اسلام میںمولانا مودودیؒ حضرت پیر سید مہر علی شاہ ؒ گولڑوی، پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ، شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ آف دکن، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا غلام دستگیرؒہاشمی قصوری، مفکر اسلام علامہ محمد اقبال ؒ کے نام بہت نمایاں ہیں ان سب سر فروشان اسلام اور شیدایان مصطفوی ﷺ کی شبانہ روز کوششوں کا نتیجہ تھاکہ مسلمانان ہند اس فتنہ کی باد سرسر سے اپنے ایمان کی دولت کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تاریخ کا پہیہ آگے کی طرف بڑھتا رہا یہاں تک کہ ۱۹۷۴ ء میں عاشقان خاتم النبیین ﷺکی تاریخ ساز اور منظم و پر زور احتجاجی تحریک کے نتیجہ میں ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں متفقہ طور پر مر زائی جماعت سے تعلق رکھنے والے قادیانی ربوہ لاہوری گروپ دونوں کو آئینی و قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہور کے اس فیصلہ کو سامنے رکھتے ہوئے بعد میں عرب امارات، جنوبی افریقہ وغیرہ میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار وں کو سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا۔
اب چاہئے تو یہ تھا کہ قادیانیت سے وابستہ لوگ قرآن و سنت اور اجماع امت کے خلاف عقائد سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میںداخل ہو جاتے یا پھر آئین پاکستان اور جمہور پاکستان کا احترام کرتے ہوئے خود کو اقلیت تسلیم کر لیتے اور قانون کے مطابق تمام شہری حقوق حاصل کرتے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس قادیانی جماعت سے وابستہ لوگوں نے آئین کو پس پشت ڈالنے اور قانون شکنی کی راہ اختیار کی اس طرح ان کے اس طرز عمل نے پوری ملت اسلامیہ پاکستان کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔
آئے روز ملک بھر کے مختلف شہروں میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے در میان جھگڑے ہو نے لگے۔ مرزا غلام احمد قادیانی، اس کے خاندان اور وابستگان کے لئے ام المونین، اہل بیت، خلیفہ وغیرہ کے اور اس قسم کی اصطلاحات جو اسلام اور مسلمانوں کا تشخص سمجھی جاتی ہیں، مرزا خاندان کے لئے استعمال ہو نے لگیں یوں آئین کا منہ چرایا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے مرزائیوں کو ایسی شر انگیز سر گرمیوں سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ یہاں تک کہ حکومت پاکستان نے ملک کے اندرمذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اس وقت کے صدر مملکت نے جنرل محمد ضیاء الحق نے آرڈینینس نمبر۲۰ جاری کیا اور اس ’’ امتناع قادیانیت آر ڈیننس‘‘سے موسوم کیا گیا۔ ۲۶ اپریل ۱۹۸۴ء کو جاری ہونے والے اس صدارتی آرڈیننس کو قادیانی جماعت کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت میں قادیانیوں کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ آرڈیننس قرآن و سنت کے منافی ہے۔
قادیانیوں کی اس آئینی درخواست کی سماعت کے لئے وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس فخر عالم کی سر براہی میں ایک بینچ تشکیل دیا گیا ۔جس میں جسٹس چوہدری محمد صدیق، مسٹرمولانا ملک غلام علی، مسٹر جسٹس عبدالقدوس قاسمی ایسے فاضل جج شامل تھے۔ مذکورہ بینچ نے سرکاری تعطیلات کو چھوڑ کر ۱۵ جولائی ۱۹۸۴ء سے ۱۲ اگست ۱۹۸۴ئتک مسلسل کیس کی سماعت کی اور ۱۲ اگست ۱۹۸۴ء کو ہی اس کا مختصر فیصلہ سنا دیا جب کہ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو جاری کیا گیا۔اس موقع پر عدالت نے قانونی و شرعی معاونت کے لئے ملک بھر سے چند علماء کی خدمات حاصل کیں جن میں قاضی مجیب الرحمن، پروفیسر محمود احمد غازی، مولانا صدر الدین الرفاعی، علامہ تاج الدین حیدری، پروفیسر محمد اشرف، علامہ مرزا محمد یوسف شامل تھےـ ٘تقریبََا ایک مہینہ تک جاری رہنے والی اس بحث میں قادیانی وکیل مجیب الرحمن اور لاہوری گروپ کے نمائندے کیپٹن (ریٹائرڈ)عبدالواحدنے اپنی اپنی جماعت کے موقف کے حق میں دلائل پیش کئے۔
ناموس رسالت ﷺ اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ کا تحفظ کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ چنانچہ سماعت مکمل ہونے کے بعد جب عدالت نے اپنا تفصیلی فیصلہ لکھا تو اس میں جا بجا صراحت کے ساتھ آپ کا نام لے کرآپ کے پیش کردہ دلائل کی صداقت اور ثقاہت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ذیل میں عدالت کے فیصلہ کے صرف دو اقتباسات پیش کئے جاتے ہیںملاحظہ ہوں۔
ایک معروف حدیث مروی ہے جو کسی ایسے شخص کو کافر کہے جو کا فر نہیں تو یہ کفر غلط الزام لگانے والے پر لوٹ آئے گا۔
ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ایک غیر مسلم کو مومن یا مسلم کہا جائے ‘‘۔( قادیانیوں کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ، مترجم محمد بشیر ایم اے، دار العلم، ماڈرن وے بلڈنگ اسلام آباد، طبع اوّل جنوری ۱۹۸۵ء،ص : ۲۲۳)۔
اسی طرح شیخ الاسلام نے صدارتی آرڈیننس نمبر۲۰ جسے امتناع قادیانیت آرڈیننس کا نام دیا گیا ہے کا دفاع کرتے ہوئے اور اس کے نفاذ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس آرڈیننس کے جاری ہونے کے وجوہ و اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ قادیانیوں نے ۱۹۷۳ء کے آئین کی ان دفعات کو تسلیم نہیں کیا جن کے مطابق انہیں غیر مسلم قرار دے کر پا بندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اگر ایسی صورتحال نہ ہوتی تو اس آرڈیننس کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔فاضل عدالت نے شیخ الاسلام کی اس دلیل کو اپنے فیصلے میں لکھتے ہوئے یوں لکھا: ’’ ہم پروفیسر محمد طاہر القادری کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اگر قادیانی آئینی دفعات کی پا بندی کرتے تو اس آرڈیننس کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
مذہب پر پابندی لگانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ‘‘ اس کے علاوہ اور بھی ان پر پابندیاں عائد کروانے میں شیخ الاسلام نے دلائل دے کر ایک تاریخی کارنامہ سر انجام دیا جو تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ شیخ الاسلام کی تحفظ ناموس رسالتﷺ کے حوالے دوسری علمی جہت قلم قرطاس کے ذریعے ناموس خاتم النبیین ﷺ کا دفاع کرنا ہے۔اس حوالے سے شیخ الاسلام کا تحفظ ختم نبوت پر تاریخی قلمی کارنامہ (۹۵۰) صفحات پر مشتمل ’’ عقیدہ ختم نبوت ‘‘ کتاب ہے اسکے علاوہ بھی ختم نبوت پر درجنوں انکے علمی شہ پارے موجود ہیں اس کے علاوہ سینکڑوں کتب ان کی منظر عام پر آچکی ہیں جو دور حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں۔