ہاں ہم ہی شاہین ہیں

دنیائے کرکٹ اس وقت کرکٹ کے بخار میں بری طرح مبتلا ہے، خاص طور پر ایشیا اور ایشیائی ممالک میں میں بھی کرکٹ کے میدانوں کے دو روائتی و تاریخی حریف یعنی بھارت اور پاکستان تو اس بخار میں ایسے مبتلا ہے کہ جیسے زندگی و موت کی جنگ ہو۔پاکستان اور بھارت کا پہلا میچ جس کے چرچے قبل از میچ اس قدر تھے کہ مبصرین کرکٹ نے تو ان دو ممالک کے درمیان میچ کو ٹی 20 کا فائنل ہی قرار دے دیا۔اس میچ سے جتنا فائدہ میڈیا نے اٹھایا شائد اُتنا پورے ٹورنامنٹ میں نہ اٹھایا جا سکے۔دونوں ممالک کے مرکٹ مبصرین، اشتہارات، ٹاکرا اور کھلاڑیوں کے انٹرویوز ایسے چلائے جا رہے تھے جیسے کہ دنیا کا اس وقت سے بڑا ایشو ہی پاک بھارت کا میچ ہو۔

خیر گذشتہ روز اس کلائمیکس کا اختتام پاکستان کی جیت کی صورت میں ختم ہو گیا لیکن بھارت کے لئے بہت سے اسباق بھی چھوڑ گیا ۔کہ غرور کا ہمیشہ سر نیچا ہی ہوتا ہے کیونکہ میچ سے قبل جس انداز سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ اور نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی تھی اس کا جواب ہماری ٹیم نے اگرچہ میڈیا پر تو اتنا نہیں دیا البتہ میدان میں میچ جیت کر یہ ثابت کر دیا کہ اب ہم صرف شاہین نہیں بلکہ ہم شہ پر ہو گئے ہیں۔ہمارے بازوئے طاقت میں عزم صمیم اور اعتماد کی طاقت بھی عود آئی ہے۔

پاکستان نے ٹاس جیت کر خود بائولنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔شاہین آفریدی سمیت تمام بائولرز نے اپنی جارحانہ بائولنگ سے ثابت کر دیا کہ کپتان کا فیصلہ درست تھا۔ بھارت کی ٹیم مقررہ اوورز میں ایک سو اکیاون سکور کر سکی۔حدف کے تعاقب میں بابر اعظم(کپتان) اور رضوان نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایک گیند کو ذمہ داری کے ساتھ کھیلتے ہوئے 13گیند قبل ہی میچ اپنے نام کر لیا۔پاکستان نے گویا یہ میچ دس وکٹوں سے جیت لیا۔اس میچ نے نئی تاریخ اس طرح سے رقم کی وہ ٹیم جس پر بھارتی ٹیم کی نظر نہیں پڑتی تھی اب اسی سے نظریں چرا رہی ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ کبھی بڑا بول نہیں بولنا چاہئے۔

بڑے بول تو آج کل پاکستانی قوم بھی بول رہی ہے کہ ایک میچ جیت کر یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ جیسے ہم کپ ہی جیت گئے اور مائنڈ سیٹ ہے بھی ہمارا ایسا ہی، کہ ہم کہتے ہیں کہ انڈیا سے جیت جائیں باقی سب سے ہار بھی جائیں تو کوئی بات نہیں اور جب عملی طور پر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر انہیں ہیروز کو زیروز بنانے میں ہم ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے۔ لیکن کپتا ن بابر اعظم کی تقریر اور ڈریسنگ روم میں اپنے کھلاڑیوں کو مزید بہتر کھیل پیش کرنے کی استدعا سے لگتا ہے کہ اب ٹیم کافی سنجیدہ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جیت کے اس عمل کو جاری رکھنا ہے تاکہ ان کا اور ملک کا وقار بلند کیا جا سکے۔خاص کر انڈیا کے بعد نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیم کو شکست دینا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ ہمارا کرکٹ بورڈ اتنا مضبوط نہیں نہے جتنے کہ دیگر بورڈز ہیں۔

ایسی صورت حال میں ہم ان دونوں ٹیموں کو شکست سے دوچار کر کے ان سے پاکستان نہ آنے کی وجہ کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ہماری جیت دنیا کو بتائے گی کہ ہمارا وجود کرکٹ کی دنیا میں کتنا اہم اور ضروری ہے۔مجھے اشفاق احمد کا ایک قول یاد آگیا کہ آپ کے بڑا بننے کے لئے ضروری ہے کہ بڑا بن کر دکھائیں لوگ خود بخود ہی آپ کو بڑا بنا دیں گے۔

لہذا کپتان بابر اعظم کی بات دل کو لگی کہ اصل امتحان ہمارا اب ہے کہ کیا ہم انڈیا کو ہرانے کے بعد اپنی اس جیت کے عمل کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔کیونکہ باقی ٹیموں کو ہرا کر ہی ہم اپنے اصل مقصد کو پانے میں کامیاب ہوں گے۔ اور ہمارا اصل ٹارگٹ کیا ہے۔ وہ ہے اس کپ کو ہر حال میں جیتنا۔مجھے پورے میچ میں جو سب سے اہم بات نظر آئی وہ تھی ٹیم سپرٹ، گویا بائولنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ میں ایک مضبوط اور منظم ٹیم کو دیکھا گیا۔ وگرنہ ہو سکتا ہے کہ یہ میچ بھی ہمارے ہاتھ میں نہ آتا۔دوسری اہم بات کو میرے مشاہدہ میں آئی ہو سکتا ہے کہ میرا مشاہدہ درست نہ ہو، وہ یہ تھی کہ میچ کے دوران بابر اعظم کپتانی کرتے ہوئے نظر آئے۔باہر سے کسی قسم کی کوئی پرچی یا ہدایات نہیں آئیں۔گویا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ گرائونڈ میں کپتان کو مکمل آزادی حاصل تھی جس کی بنا پر اس کا اعتماد اس دن کپتانی اور بیٹنگ دونوں میں آسمانوں کو چھوتا ہوا نظر آیا۔

اب آتے ہیں کہ یہ شاہین ایک دم سے کیسے شہ پر بن گئے۔یقینا ایک شاہین کی پرواز اسی صورت دیدنی ہوتی ہے جب اسے آزاد فضا ئوں میں اڑنے کا موقع ملتا وگرنہ تو پنجرہ میں مقید شاہین و شہباز اپنے اڑان کی طاقت بھی بھول جاتے ہیں۔میرے ایک پیارے دوست کا خوبصورت شعر یاد آگیا کہ

شاہین و شہباز ہمارے ہی نام تھے

افسوس مار کھا گئے اک تتلی سے ہم

شاہینوں کے پر اگرچہ مکمل وق ہو چکے ہیں تو اس کی وجہ ان کو آزاد اور کھلی فضا کا ملنا ہے۔یعنی کپتان اور کھلاڑیوں کو اپنی آزادی سے کھیلنے کی اجازت۔اس اجازت کا نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔اس بات کا کریڈت ریز راجہ کو ضرور دینا چاہئے کہ جس نے بورڈ کا عہدہ سنبھالتے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ٹیم کو کھل کر،اعتماد کے ساتھ اور جارہانہ انداز میں کھیلنا ہوگا۔ اس عمل سے مخالف ٹیم پر پریشر پڑتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ شاہین اب شہ پر ہو چکے ہیں،اور اسی جذبہ ،جنون اور اعتماد کے ساتھ ان شا اللہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو شکست سے دو چار کر کے ثابت کریں گے کہ ہاں ہم ہی شاہین ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔