دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام لفظ ’’سلم ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی اطاعت اور امن ہے یعنی اسلام کے معنی ’’سلامتی‘‘ کے ہیں، عربی میں لفظ اسلام کے معنی اپنے آپ کو کسی امر کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ اپنے آپ کو اطباع کے لیے پیش کر دینا۔
دین اسلام فطری دین ہے اس میں حیا کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے’’ حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور اسلام میں خصوصیت ’’حیا‘‘ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ نور آیت نمبر 30مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد کو بھی اپنی حدود و قیود میں رہنے کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے اور لازم قرار دیا ہے کہ مرد بھی خواتین کی عزت و احترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نظریں جھکائے رکھیں تا کہ گناہوں سے بچ سکیں۔
قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر کئی مرتبہ پردے کا حکم آیا ہے۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں اور ایک اور جگہ آیت نمبر 59 میں’’ عورت کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ عورت کو مستورات بھی کہا جاتا ہے’’ مستور‘‘کے مطلب عورت کے ہیں،پردے کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ’’ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے ‘‘کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تلاش کرتا ہے۔ حوالہ ترمذی شریف جلد نمبر 1 حدیث نمبر 1181۔
ہمارے معاشرے میں مغربی رسم و رواج کو اپنانا فیشن بن چکا ہے۔ ہم اپنی اقدار کو بھول کر یا چھوڑ کر مغربی اقدار کو اپنانے کو اپنا اسٹیٹس سمجھتے ہیں۔ اغیار کے رسم و رواج کو اپنا کر ہم دین اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں، بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مغرب میں شادی کی اوسط عمر اڑھائی سال ہے۔ ماں باپ علیحدگی کا اثر براہ راست بچوں کی زندگیوں پر ہوتا ہے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے خاندانوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور تباہی مقدر بن جاتی ہے۔
موجودہ دور میں انتہائی چست لباس کا استعمال اور سر کو مکمل نہ ڈھانپنا سینہ پر چادر کا نہ ہونا گناہ کو براہ راست دعوت دینے اور شیطان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے برابر ہے۔ پردہ ہر دور میں عورت کے لئے مکمل تحفظ اور مکمل کامیابی کی ضمانت ہے۔ عورت کے لئے اپنے سر اور چہرہ کو چادر میں چھپانا لازم ہے۔ آج کے جدید دور میں پردہ کی بہت سی اقسام مثلاََ برقع، اسکارف، موزے،دستانے اور دیگر لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں عورت کی سہولت کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے۔
زمانہ جاہلیت کی عورتیں بھی بے پردہ رہتی تھی لیکن وہ ایسا لباس پہنتی تھیں کہ اْن کی پشت ڈھکی اور سینہ کھلا رہتا تھا اور آج جدّت پسندی کی لعنت نے خواتین کو پشت چھپانے سے بھی قاصر کر دیا ہے اور وہ نیم برہنہ حالت میں بازاروں میں ایسے پھرتی ہیں کہ جیسے پردہ اْنکی ضرورت نہیں اورپھر عصمت زنی کا ذمہ دار مردوں کو قرار دیتی ہیںجبکہ معاشرہ میں عام ہونے والا گناہ کبیرہ (زِنا)ایک عام سی بات بن چکاہے اور اسکی وجہ بے پردگی ہے۔
’’حیا ِ‘‘عورت کا زیور ہے اس کا مکمل اہتمام عورت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ پردہ عورت کو شیطان اور شیطان کے چیلوں سے بچانے اور تحفظ کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت پردے میں رہ کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے کاروبار بھی کر رہی ہیں اور قوم کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ مسلم خواتین پائلٹ ڈاکٹرز انجینئرز اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں محفوظ طریقے سے اپنا کردار نبھا رہی ہیں۔ یہی اسلامی معاشرے کا حسن ہے۔ عورت کا پردے سے باہر ہونا مر د و زن دونوں کو گناہ کی طرف مائل کرنا ہے۔ جس سے نہ صرف رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ معاشرتی بدحالی کا بھی موجب بنتا ہے۔ عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔
’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567۔ یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ہم سب پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔
ان سے روگردانی ہی کو تو گناہ کہا گیا ہے۔ کون مسلمان ہوگا جو یہ نہیں مانتا کہ اسلام میں پردے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔بحیثیت مسلمان ہم سب یہ تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تو پردے کا یہ عالم تھا کہ خواتین تو کیا مرد بھی سر پر پگڑی یا ٹوپی لازمی پہنتے تھے اور ایسا نہ کرنا گناہ اور بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔ اب کیا ہوا کہ مرد و عورت دونوں سر ڈھانپنے اور پردہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو دقیانوسی اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی بہتری اور اسلام کی سربلندی کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ والدین بچوں کے لباس اور گفتگو پر خصوصی توجہ دیں تو کافی حد تک ماں مسائل کا حل ممکن ہے۔ اللہ سے دعا ہے کے اللہ کریم ہمیں صحیح معنوں میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے ، اسلامی اقدار کو اپناتے ہوئے اپنا کردار نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین