جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوامی رائے سے حکومت قائم ہو، جمہوریت میں جوحکومت قائم ہوتی ہے وہ عوامی ہوتی ہے، عوام کے لئے ہوتی ہے اور اس میں عوامی نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی حکومت اُن امیروں کی حکومت ہوتی ہے جو کسی بھی حکومت میں ہوتے ہوئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
آج کی دنیا میں جمہوریت کو نیا نام دیں تو وہ حکومت جسے امیر بناتے ہیں امیروں کے لئے ہوتی ہے اور اس میں امیر نمائندے ہوتے ہیں۔ غریب، پڑھا لکھا اور متوسط طبقے کے آدمی کی نمائندگی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرسکے۔
پاکستان میں جمہوریت اس لئے نہیں چلتی کیونکہ یہاں جو امیر جمہوریت پر پیسہ لگاتا ہے وہ اس کے ذریعے ڈبل پیسہ کمانا چاہتا ہے، جس کے باعث نہ ملک امیر ہوتا ہے اور نہ عوام، عمران خان کی حکومت کی ناکامی کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ اُن کی حکومت میں بیشتر نمائندے پرانی حکومتوں کے ہیں، جو کہ سیاست کے کاروبار کے پرانے کھلاڑی ہیں اور سیاست کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یہ وہ شراب ہے جو ہر دور میں ایک نئے لیبل کے ساتھ آتی ہے، عمران خان کی حکومت میں دوسرے جو ممبران ہیں انہوں نے بھی کسی نہ کسی سرمایہ دار کا ہاتھ پکڑتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، عمران خان کا جو اپنا ارادہ تھا، وہ پورا نہیں ہوسکا، کیونکہ جب حکومت بنی تو مجبوری کے تحت مختلف لوگوں کو مختلف وزارتیں بانٹی گئیں۔
جن کے وہ اہل نہیں تھے، وزارتوں کی کامیابی اُن پالیسیز سے ہوتی ہے جو اُس وزارت کو کامیاب کرے اور جس سے لوگ فائدہ اُٹھائیں، افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مختلف شعبوں کے امیر لوگوں نے اپنے مفاد کے لئے اُن وزارتوں کو استعمال کیا اور ایسے قانون بنائے جس سے وہ اپنے اپنے کاروباروں میں کامیابی حاصل کرتے رہے حکومتی خرچوں پر، اس طرح سے حکومت پر دباؤ آتا رہا اور معیشت ڈوبتی رہی۔
یہ کاروباری لوگ امیر سے امیر تر ہوتے گئے، مگر اپنے اداروں میں نہ انہوں نے اپنے مزدوروں کی تنخواہیں بڑھائیں اور نہ ہی ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا، ان حضرات کا مقصد یہ تھا کہ ان کی جاگیرداری اور مونوپولی قائم رہے، اسی لئے انہوں نے حکومتی اداروں کو کمزور کیا تاکہ حکومتی ادارے بند ہوجائیں یا فروخت ہوجائیں، تاکہ یہ اپنی مونوپولی کرتے رہیں، آج اس مافیا نے ہر چیز کو مہنگا کردیا ہے۔
جس کا الزام وہ حکومت پر لگا رہے ہیں اور سیدھی سادھی عوام اس پر یقین کررہے ہیں، مہنگائی روکنے کا آسان فارمولہ ہے کہ کاروباری مافیا کے لوگوں کو روکنے کے لئے انہی کے کاروبار کے مقابلے میں حکومت کاروبار کھولے، اس سے ایک مقابلے کی فضاء قائم ہوگی اور کوئی بھی کاروباری حضرات ذخیرہ اندوزی، یا سپلائی میں مصنوعی رکاوٹ نہیں کر پائیں گے۔
آج اگر ہم بات کریں تعلیمی اداروں کی تو انہوں نے تعلیم کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ ہر انسان کی جیب پر بھاری لگتی ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکول کی کارکردگی نہایت ہی افسوس ناک ہے، اسی طرح اگر صحت کی بات کریں تو پرائیویٹ اسپتال حکومت سے زمین انسانی خدمت کے لئے لیتے ہیں اور اُس پر پرائیویٹ اسپتالوں کی فیس لی جاتی ہے۔
تعلیم مہنگی، اسپتال مہنگے اور اب یہ عالم ہے کہ بجلی بھی اتنی مہنگی کردی کہ ہر انسان اس کے بل کو لے کر رو رہا ہے، پرائیویٹ آئی پی پیز نے بھی اپنی جاگیرداری بنادی ہے، کے الیکٹرک اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جب یہ حکومت کے پاس تھی تو پاکستان کی تاریخ کی سب سے کم سطح پر بجلی کے بل آتے تھے۔
آج بھی حکومت ہر اُس ادارے کو جو اُن کے پاس ہے فروخت کرنا چاہتی ہے، مگر یہ بھول رہی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر مزید اور بلیک میلنگ کرے گا اور اپنی من مانی قیمتیں لگائے گا،جو معیشت کے لئے ایک مصیبت بن جائے گی۔ پرائیویٹ اور ملٹی نیشنل سیکٹر ہمیشہ سے حکومتوں سے فائدے مانگتے ہیں، مگر عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچاتے۔
جس کے باعث آج 30فیصد غربت میں اضافہ ہوا اور روزگار پر ہونے کے باوجود کم تنخواہوں کے باعث مہنگائی کا رونا روتے ہیں، جب تک حکومت مکسڈ اکانومی پر توجہ نہیں دے گی، یعنی کہ پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں کو ملا کر چلانا، اس کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔