تربیت کا عمل بہت توجہ طلب اور صبر آزما ہے یہ بہت ضروری بھی ہے۔ آج کل کے دور میں انٹرنیٹ کی بدولت معلومات بہت زیادہ عام ہو گئی ہیں۔ اگرچہ کتابوں کا مطالعہ کم ہو گیا ہے مگر ہاتھ میں موبائل ہونے کی وجہ سے ہر چیز کی معلومات انگلیوں کے پوروں پرحاصل ہو جاتی ہیں اس کے باوجود معاشرے کا رجحان بگاڑ کی جانب ہی ہے گویا یہ بات ثابت شدہ ہے کی علم تربیت کے بغیر لا حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کے لئے آسمانی کتب کے ساتھ رسول بھی بھیجے، جنہوں نے اپنی پاک سیرت کے ذریعے انسانوں کو تعلیم و تربیت دی تاکہ وہ انسانیت کی تکمیل کر سکیں، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ رسالت کی تکمیل کر دی اور اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بگڑی ہوئی قوم میں تئیس سال کے قلیل عرصے میں وہ انقلاب پیدا کیا کہ عرب کے صحراؤں میں پلنے والی یہ گمراہ قوم دنیا کی امام بن گئی یہ سب قرآن پاک کا اعجاز اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا کمال تھا کہ دنیا بھر کے انسانوں نے ایک بدو قوم سے جہاں بانی کے اصول سیکھے آپ صلی اللہ وسلم نے کس طرح ایک جہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کی تربیت کی اور اس کو عالم فاضل بنا دیا یا آپ صلی اللہ وسلم کی سیرت پاک ہے جو قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ رہےگی اس کے مطابق عمل کرکے ہم نہ صرف اپنی اولاد بلکہ ارد گرد کے افراد کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں انسانیت کا درد و خیر خواہی کے جذبات رکھتے تھے۔ اس بات کی گواہی قرآن پاک میں بھی اللہ تعالی نے کئی مقامات پر دی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل و جان سے چاہتے تھے کہ آپ کی قوم گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی اختیار کرلے۔ اس کے لئے آپ دن رات کوشش میں مصروف رہتے تھے حتی کہ قرآن کے الفاظ میں آپ نے اپنی جان اس کام کے لیے گھلا دی۔ انہی خیر خواہی کے جذبات کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے کافر سرداروں کی مخالفت کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےدین کی تعلیمات لوگوں کے سامنے انتہائی حکمت اور دانائی کے ساتھ پیش کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی خامیوں کو عمومی طور پر بیان کرتے جس سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی اور اصلاح بھی ہو جاتی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ سادہ مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ جس سے سننے والا کبھی اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتا۔ مثلا آپ نے فرمایا علم وہ ہے جو نفع بخش ہو، بہترین مالداری دل کی مالداری ہے۔ ہر وقت نصیحت سے گریز کرتے تھے اور موقع مناسبت کا خیال رکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افراد کی نفسیات اور عادات کے مطابق برتاؤ کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت طلب کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اس کی ایک بوڑھی ماں ہے جس کا اس کے سوا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ماں کی خدمت کرنے کو کہا اس طرح افراد کو ان کے حالات کے مطابق احکامات دے کر جس طرح اصلاح کا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا وہ زیادہ پر اثر ثابت ہوا اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم افراد کی نفسیات اور مزاج کا خیال نہ کرتے اور ان سے بڑے بڑے مطالبات کرتے تو شاید اصلاح کا عمل اتنی جلدی نہ ہو پاتا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی نارواشرائط پر صحابہ کرام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا یہاں تک کہ جب آپ نے انہیں قربانی کرنے اور بال مونڈھا نے کا حکم دیا تو وہ اپنی جگہ بیٹھے رہے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت ام سلمیٰ سے مشورہ کرکے خود خود قربانی کرنے اور سر منڈھانے کا عمل انجام دیا جس پر صحابہ کرام نے آپ کی پیروی کی کی جذبات شدید ہونے کی وجہ سے آپ نے ان پر زور دینا مناسب نہ سمجھا جس سے ان کے جذبات اعتدال پر آگئے اسی طرح آپ موقع محل کی مناسبت سے حالات اور واقعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تربیت اور ذہنی افکار کی تطہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔
ایک دفعہ آپ کا گزر بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ اس بکری کے بچے کو کون خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ کرام میں سے کسی نے کہا ہم میں سے کوئی بھی اسے خریدنا پسند نہیں کرے گا کیونکہ ایک تو عیب دار ہے دوسرے یہ مرا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس دنیا کی حقیقت تمہارے رب کے نزدیک اس بکری کے بچے سے زیادہ نہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے ذہنوں میں دنیا کی کم مائیگی کے احساس کو اس طرح پختہ کر دیا کہ مرتے دم تک اسے کوئی بھول نہ پایا ہوگا۔
موقع محل کی تربیت کے مراحل میں زجروتوبیخ اور سزا کا عمل ناگزیر ہے آپ صلی اللہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہ لیا اور نہ ہی جھگڑا کیا البتہ اللہ کی حدود کو قائم کرنے کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم زرا برابر سستی برداشت نہیں کرتے تھے ایک موقع پر کچھ اصحاب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور چوری کے معاملے پر حد نہ جاری کرنے کی سفارش کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک کر دیئے گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا چوری کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔
خلاف دین باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ برحق اور حکمت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں نمایاں کام انجام دینے والے صحابہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحسین اور تعریف فرماتے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مالی امداد سب سے بڑھ کر تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بشارت دی کہ آج کے بعد عثمان کو کوئی گناہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے حضرت عمار بن یاسر کو تسلی دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے یاسر کے خاندان والو! تمہیں خوشخبری ہو تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے۔
مشہور مقولہ ہے کہ امید پے دنیا قائم ہے تربیت کے مراحل میں امید کی بہت زیادہ اہمیت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں کوہمیشہ اچھے وقت کی امید دلائی جس وقت کفار کا غلبہ تھا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا تھی ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اور پرامید بشارتوں نے مسلمانوں کو حوصلہ اور ہمت دلائی یہی امید اور رجائیت ان کی طبیعت میں رچ بس گئی۔ اور تحریک کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئی وہ دین جو مکہ میں مغلوب اور ختم ہونے کےقریب نظر آتا تھا مستقبل میں عرب و عجم اور آگے بڑھ کر ساری دنیا میں حکمران ہوا۔ وہ نظام جسےکفار کا غلبہ مٹانے کے درپے تھا آخر کار چند مٹھی بھر افراد کی کوششوں سے دنیا پر غالب آیا یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔ ان کی اعلی سیرت و کردار کا نمونہ ہے جو آج بھی ہمارے لئے موجود ہے اور ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ہم اس پر عمل کریں، اس کا حق ادا کریں اور آگے بڑھ کر کامیابیوں سے ہم کنار ہو جائیں۔