مودی انتظامیہ نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے چاروں جانب سے کئی دوسرے محاذ کھول رکھے ہیں، اسی مقصدکے تحت خطے میں بدامنی کو ہوا دے کر سابق کابل انتظامیہ کو پاکستا ن کیخلاف استعمال کیاگیا۔بی جے پی حکومت کے جارحانہ عزائم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ثبوتاژکرنے کیلئے ہیںکیونکہ’’بنیئے‘‘ کو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی۔پاکستان کے جدید میزائلوں کی تیاری میں بیجنگ کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا گیا اور اب وی ٹی فور ٹینک کا آپریشنل ہونا بھی دفاعی تعاون کی نادر مثال ہے۔
مشترکہ دفاعی حکمت عملی کے تحت چین ہمیشہ سے ہی جدید جنگی سازوسامان کی تیاری میںمعاونت کرتا ہے تاکہ دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے، ویسے بھی موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وطن عزیز کی سلامتی و خودمختاری کی ضامن عساکر پاکستان کوہر قسم کے جدید حربی تقاضوں سے ہم آہنگ کرناناگزیر ہو چکا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے خطے میں بدامنی سے متعلق عالمی برادری کے خدشات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیںلیکن واشنگٹن اب بھی ایک ایسی حکومت کی تشکیل چاہتا ہے جو مستقبل میں اس کے اشاروں پر چلے ۔ افغان دھرتی پر اپنے مذموم توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے کی گئی خطیر سرمایہ کاری کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر امریکا،بھارت اور اس کے اتحادی اب بوکھلاہٹ کا شکار ہیںلہٰذا ان کی طرف سے پاکستان کیخلاف کوئی جارحانہ مشترکہ حکمت عملی طے کرنا بعید از قیاس نہیں۔ ملک دشمن عناصر نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ’’ایف اے ٹی ایف‘‘کی بلیک لسٹ میں شامل کرانے کے لئے جو مذموم کوششیںکیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیںحالانکہ دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ناقابل فراموش کردار ادا کرتے ہوئے80ہزار کے لگ بھگ جانوں اور کروڑوں ڈالرز کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف20برس تک جاری رہنے والی نام نہادجنگ کے دوران خراب حالات سے شدیدمتاثر ہونے کے باوجود امن،مصالحت، تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے پاکستان نے ہی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مودی اور غنی کے لگائے گئے بے سروپا الزامات سے ’’امن عمل ‘‘کوشدید دھچکا لگا جس کا خمیازہ آج خطے کے دیگر ممالک کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کیخلاف جب امریکا نے گوریلا جنگ شروع کی تو بڑی تعداد میںافغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیاجس سے جہاں کلاشنکوف کلچر کو فروغ ملا وہیں معیشت پر اضافی بوجھ بھی پڑالیکن واشنگٹن نے عظیم قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی اور خودمختاری کے معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے بھارت اور دیگر ملک دشمن عناصر کولاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ کٹھ پتلی افغان حکومت کی معاونت سے بھارتی دہشت گردوں نے پاکستان میں جو وحشت و دہشت کا بازار گرم کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ۔
نائن الیون سانحہ کے بعد امریکی صدر بش نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس لوٹانے کی دھمکی دے کر اسے افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بناکر’’ ڈومور ‘‘کے جو تقاضے جاری رکھے وہ آج بھی مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہرعالمی فورم پرلائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت وبربریت اور مسئلہ کشمیرمیں ڈھائے جانے والے ظلم وستم کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے لیکن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو ’’بنیئے‘‘نے ہی اپنی ہٹ دھرمی کی باعث ناکام کیا اور ہمیشہ مذاکرات سے فرار کی راہ اختیارکرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طوالت بخشی ہے۔خطے میں قیام امن کیلئے افغانستان کے انسانی بحران سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے اب اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو سنجیدہ بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
افغانستان میں جو حالیہ انقلاب آیا اس سے خطے میں جہاں امریکی مفادات پربڑی بھاری زد پڑی ہے وہیں تبدیل شدہ صورتحال میںپاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات بھی مزید بڑھ چکے ہیں لہٰذا بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں واشنگٹن نے نئی دفاعی حکمت عملی میں چین اور روس کو مرکزنگاہ بنایا ہوا ہے اور اسی حوالے سے ہی اب ہر پالیسی ترتیب دی جارہی ہے۔ واشنگٹن اپنے اتحادیوں کو نیا محاذکھول کرایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کیلئے نت نئے معاہدے کر رہا ہے جس آنے والے دنوں میں حالات مزید کشیدگی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نئے سکیورٹی معاہدے سے جنوب مشرقی ایشیاء میں عالمی طاقت کے توازن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہواہے کیونکہ اس کے تحت آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم 12 آب دوزیں بنانے اور انہیں سمندر میں تعینات کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی،درحقیقت ’’آکوس‘‘ اور ’’کواڈ‘‘معاہدے انہی اقدامات کا حصہ ہیں جس کے تحت واشنگٹن’’ انڈو چائنا ‘‘کو اپنا محور بنا چکا ہے۔امریکا کی توجہ اب انڈو پیسیفک پر ہے یہی وجہ ہے کہ باقی ایشیاء میں اس کی اتنی دلچسپی نہیں رہی ،یاد رہے کہ اس امر کا اعتراف 10برس قبل سابق صدر باراک اوباما نے بھی کیا تھا۔
افغان جنگ میں امریکا کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا جسے مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان سے مکمل انخلاء کا فیصلہ کرکے اسے متعینہ شیڈول کے مطابق مکمل کیاگیا۔واشنگٹن کی شروع دن سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ اتحادیوں کے ذریعے خطے کے حالات کومزید خراب کرکے چین اور پاکستان کیخلاف گھیرا تنگ اور اقتصادی راہداری ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جائے ، وہیں اس میں بھی کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ ایشیائی ممالک میں دراندازی کے لئے افغانستان میں مضبوط فوجی اڈے بناکر قدرتی وسائل پر شب خون مارا جائے لیکن چین نے سرمایہ کاری، تجارت اورسفارتکاری کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھادیاہے کہ جس میں ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے، لیکن ایشیاء پر اپنی معاشی، فوجی اور سیاسی قوت سے بالادستی قائم کرنے کی پالیسی اپناکر امریکا اس کے لئے کئی مسائل پیدا کر رہا ہے۔
بیجنگ افغانستان کو ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبے میں شامل کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے، لہٰذا اس کے دنیا میں بڑھتے معاشی اور سیاسی اثرورسوخ کو روکنے کیلئے ایک گریٹ گیم جا ری ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر زکے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پرجہاں بعض حلقے اطمینان اور خوشی کا اظہارکر رہے ہیں وہیں بعض ممالک میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔چینی کمپنیوں کی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے جدیدٹیکنالوجی منتقل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کوخطے میں مزیدمستحکم ہونے کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پاور پراجیکٹ تسلسل کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔
سی پیک صرف چین اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کیلئے گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جویقیناً علاقائی ریاستوں میں تجارتی اور معاشی تعاون کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا کیونکہ اس منصوبے کے ثمرات اب نظر بھی آنا شروع ہو چکے ہیں۔اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں کئی پاور پلانٹس پر کام جاری ہے،تھر بلاک II میں 330 میگاواٹ کا تھر انرجی لمیٹڈ پاور پلانٹ مائن کے قریب ہے جو تھر انرجی کی طرف سے تعمیر کیا جارہا ہے یہ پراجیکٹ 30 سالہ پاور خریداری معاہدے کے تحت نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرے گا جبکہ اینگرو تھر بلاک II پاور پلانٹ اور تھل نووا کے نام سے کوئلے سے چلنے والے مزید دو پاور پلانٹس بھی تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ اینگرو تھر بلاک II پاور پلانٹ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں کوئلے سے چلنے والا پاکستان کا پہلا600 میگاواٹ پاور پلانٹ ہے جو تھر کے مقامی کوئلے کے دخائر کو استعمال کرے گا۔ توانائی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے پاکستان میں کوئلے کے علاوہ دیگر جو بے شمار ذخائر موجود ہیںانہیں اب سی پیک منصوبے کے تحت استعمال میں لایا جا رہا ہے یہاں یہ بھی خوش آئند امر ہے کہ خطے کی دیگر ریاستیں اس منصوبے کا حصہ بن کر تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کر رہی ہیں۔