زرینہ ارے او ذرینہ”؟مسز محمود نے ملازمہ کو آوازدی،”جی بی بی جی آگئی “زرینہ دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے آئی۔اس کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں شاید روتی رہی تھی ۔”ارے کیا ہوا زرینہ کیوں روتی ہو؟”مسز محمود نرم دل خاتون تھیں۔
“بس بی بی جی اپنی تو قسمت ہی خراب ہے جی۔ کل چھوٹے والے کا بازو فریکچر ہوگیا جی۔ اسپتال لے کر گئی تو دوائیوں پہ سارے پیسے خرچ ہوگئے اب آدھا مہینہ پڑا ہے کیسے گزارا ہوگا اوپر سے چھوٹے کے ابے نے ناک میں دم کر رکھ رکھا ہے روز مارتا ہے جی۔ کام دھندا بند ہے اس کا اوپر سے مہنگائی اتنی ہے کہ پہلے دال روٹی کھا کے گذارا کر رہے تھے اور نہیں تو پیاز روٹی پہ رکھ کے کھا لیتے تھے پر اب تو باجی دال سبزی بھی مہنگی ہوگئی ہے پھر مکان کا کرایہ۔بجلی کا بل ۔غریب بیچارہ جائے تو کہاں جائے؟
کبھی تو دل چاہتا ہے جی کہ خود بھی کج کھا لوں تے بچیاں کو وی کھلا کے رب سوہنڑے کول ٹر جاؤں جی۔ پر حرام موت سے رب سوہنڑا ناراض ہوتا ہے ناں جی تو بس یہ سوچ کر رک جاتی ہوں۔”وہ دوبارہ رونے لگی ۔
اور مسز محمود سوچنے لگیں کہ واقعی مہنگائی نے تو اچھے اچھوں کی کمر توڑ دی ہے تو یہ تو پھر غریب ہے۔آج صبح محمود صاحب بھی ناشتہ کیے بغیر چلے گئے ان کا مزاج بھی گرم ہو رہا تھا جبکہ وہ انتہائی سلجھے ہوئے انسان تھے شادی سے لے کر اب تک انھوں نے مسز محمود کو کبھی شکایت کا موقع نہ دیا تھا لیکن اب کافی دنوں سے بد مزاج اور چڑچڑے ہو رہے تھے کیونکہ مالی حالات کچھ اچھے نہ رہے تھے۔ یہ کہانی مزدور طبقے زرینہ سے لے کر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی مسز محمود جیسے ہر شہری کی ہے ۔
عوام گھٹ گھٹ کے جی رہے ہیں کھانے پینے کی اشیائے خوردونوش سے لے کر ادویات،بچوں کی تعلیم،بجلی گیس،پانی کے بل ہر چیز مہنگائی کے طوفان کی زد میں ہےاور حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ قرضوں پہ پلنے والے اس ملک کا ادنیٰ درجے کا وزیر بھی اعلیٰ پروٹوکول کی زندگی گزار رہا ہے۔انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عوام میں ڈیپریشن کے مریض بڑھ رہے ہیں،خودکشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے،چوری ڈکیتی،قتل و غارت کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
وہ اپنی زندگی میں مست ہیں ان کے بچے زیادہ تر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں،علاج معالجے تک کے لیے بیرون ملک جایا جاتا ہے اور وہ بھی سرکاری کھاتوں پہ اور یہ سرکاری کھاتہ یا تو عوام کی خون پسینے کی کمائی ہے یا آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضے۔جنھیں عوام کی فلاح و بہبود کے نام پہ حاصل کیا جاتا ہے ۔افسوس کہ یہ لوگ آخرت کو بھول چکے ہیں کہ انھیں ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو تو ایک کتے کی موت کا حساب دینے سے ڈر لگتا تھا مگر یہ حکمران انسانی جانوں کے ضیاع کا حساب کیسے دیں گے؟دنیا کی عدالت سے بچ بھی جائیں مگر اللّٰہ رب العزت کی عدالت سے بچنا ممکن نہیں۔