انسان اخلاقی لحاظ میں کسی نہ کسی جزو میں کمزور پڑ جاتا ہے یا تو جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا کر بیٹھتا ہے جس کی شرمندگی اسے زندگی کے کسی نہ کسی حصہ میں اٹھانی پڑتی ہے یہ انسان کی زندگی کا کمزور ترین پہلو ہے کچھ لوگ جذبات کو کنٹرول کر کے زندگی بھر کی شرمندگی سے بچ جاتے ہیں دنیا میں بہترین اخلاق کے بہت سے لوگ آۓلیکن انکی زندگیوں میں ایسی کمزوریاں بھی نظر آتی ہے جو انکے اخلاق کے عکس کو دھندلا کر جاتی ہے۔
لیکن ہمارے نبی ﷺ اخلاق کے بلند ترین مقام پر موجود ہے جہاں جذبات کی ضرورت پڑی وہاں جذبات بھی نظر آتے ہیں انکے بیٹے قاسم کا انتقال ہوا تو آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں تو صحابہ نے پوچھا کہ آپﷺ رو رہے ہیں ؟ تو آپﷺ نے جواب دیا کہ رونا فطری چیز ہے اسلیے میرے بھی آنسو رواں ہوئے۔
نماز پڑھتے ہوئے حضرت حسن و حسین پیٹھ پر چڑھ جاتے اور آپ تب تک سجدے میں رہتے جب تک وہ اتر نہیں جاتے غرض یہ کہ آپ ﷺ بچوں کے احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے حضرت زید بن حارث فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی ان کو ڈانٹا یا جھڑکا نہیں۔
زندگی میں اتنی مشکلات تکلیف کے باوجود ہر رشتے کو آپ صلی اللہ وسلم اعتدال سے لے کر چلے اتنی آزمائشوں کے باوجود بھی آپ ﷺ صحابہ کے درمیان بیٹھ کر مزاح بھی کیا کرتے تھے ایک دفعہ تمام صحابہ کرام دسترخوان میں بیٹھ کر کھجور تناول فرما رہے تھے اور گٹھلیاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے جا رہے تھے توآپﷺ نے کہا کہ علی نے اتنی کھجور تناول فرما لیں۔
اور جب آپ صلی اللہ وسلم کو غصہ آتا تو اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ایک دفعہ ایک بدوی نے مسجد نبوی میں پیشاب کردیا صحابہ کرام نے اسے ڈانٹا چاہا تو آپ نے صحابہ کو منع کردیا اور خود وہاں پر پانی بہایا زندگی کے تمام معاملات میں احساسات و جذبات متوازن رکھنا آپﷺ کی زندگی کا نچوڑ ہے ۔ایک کافر عورت آپ پر کچرا پھینکتی ہے لیکن ایک دن نہ پھینکنے کی صورت میں اس کی عیادت کرنے پہنچ گئے وہ آپ کے خلاف سے متاثر ہو کر ایمان لے آئی۔
انتقام نہ لینا معاف کر دینا آپﷺ کی صفت ہے اسی خصوصیات کی وجہ سے آپ کے دشمن آپ کے دوست بن گئے آپ ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے آپ کا رویہ آقا غلام امیر فقیر سب سے ایک سا ہوتا تھا کسی کو اس کے رتبے کی بنا پر اہمیت نہیں دیتے بلکہ اس کے تقوی کی بنا پر اہمیت دیتے قبیلے کی ایک امیر خاتون نے چوری کر لی آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو چند لوگوں نے سفارش کرنے کی کوشش کی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کو سزا دیتا آپ صل وسلم نے اللہ کے حکم کو اپنی زندگی کے ہر جز میں اہمیت دیں اپنی ذاتی رائے کو فراموش کر کے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا سفر طائف میں آپ کے پیچھے چند اوباش لڑکے لگ جاتے ہیں اور آپ کو پتھر مار کر لہولہان کر دیتے ہیں تبھی جذبات پر کنٹرول کیا اور جبریل امین کو جواب دیا ہو سکتا ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ایمان لے آئیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگی۔
حکمت اور جذبات کو اپنے کنٹرول میں لے کر اور اللہ کی مددو نصرت کے ذریعے ایسے کام کر گئے جو رہتی دنیا میں آپﷺ کو کامل نمونہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔