صحیح رہنمائی صرف اللہ کی نازل کردہ تعلیم میں مل سکتی ہے
لطیف النساء
انسان دنیا میں کتنی بھی ترقی کرلے، کوئی بھی عہدہ حاصل کرلے، کتنا ہی کمالے، ہزاروں نوکر چاکر رکھ لے، بلڈنگیں بنا لے۔ مگر پھر بھی اکثر و بیشتر اسے دل کا اطمینان نصیب نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی فکر، ٹینشن، بیماری یا پسندیدہ خوراک یا مشاغل سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ دل کا سکون ہی تلاش کرتا رہتا ہے۔ بسا اوقات نیند لانے والی گولیاں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں۔ عموماً بڑی عمر کے لوگ زیادہ اس کیفیت سے گزرتے ہیں جبکہ جوان اپنی مصروفیات میں مست ہوتے ہیں۔
مگر سکون اور اطمینان صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو صحیح رہنمائی کیلئے شروع سے ہی اللہ کی نازل کردہ کتاب “قرآن”سے جڑے ہوتے ہیں ۔ احکام الٰہی کی پابندی کرتے ہیں ۔ شریعت پر چلنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں اور عموماً داعی کی حیثیت سے لوگوں کو بھی یہی راہنمائی دیتے ہیں صحیح راہنمائی قر آن کی تعلیم سے ہی مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ انتہائی پریشانی یا مصیبت میں جب بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے دعا مانگتا ہے ۔ قرآن پڑھتا ہے ترجمہ اور تفسیر سمجھنے کی اپنی سی کوشش ہی کرتا ہے کہ اس کو قلبی سکون ملنے لگتا ہے۔
زندگی کے اتنے بکھیروں میں انسان کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ مگر اچانک کو ئی واقعہ ، کسی کی موت، کوئی حادثہ ، اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے ۔ایک پل میں ختم ! گویا سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔ کل شام تیسر ی منزل سے ایک محترمہ ہمارے گھر آئیں دوبیٹوں کی ماں ہیں جو سترہ سال سے کم کے ہیں ۔ میرے شوہر کی طبیعت معلوم کرنے ۔ انتہائی اداس لگ رہی تھیں میں نے پوچھا خیریت ہے آپ کیسی ہیں؟ کہنے لگیں والدہ کا اچانک انتقال ہو گیا تھا ، سوا مہینے بعد آئی ہوں ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی اور انتہائی افسوس بھی کہ مجھے خبر تک نہ ہوئی ۔ ہرکوئی یہی سمجھتا رہا کہ فلاں نے انہیں بتا دیا ہوگا ۔ وہ کہنے لگیں انتہائی غیر متوقع موت تھی میں اکلوتی بیٹی ہوں اور دو بھائی ہیں ۔ میرے لئے امی ہی سب کچھ تھیں میں بہت ڈر رہی ہوں اور یہ صدمہ برداشت نہیں کر پارہی ہوں ۔موت یوں اچانک جدائی ڈال دے گی میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ میں نے کہا انتہائی غم اور انتہائی خوشی میں بھی ہمیں صبر کرنے اللہ کی حمد کرنے اور اسکی تسبیح کرتے رہنے کا حکم ہے کہ اس کے فضل سے ہی سارے کام انجام پاتے ہیں اور ہمیں نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ آخرت کی تیاری کے ڈھنگ سکھانے اور اللہ کی نازل کردہ کتاب سے راہنمائی لینے پر آمادہ کرتے ہیں کہ کتابِ الٰہی کی تعلیم ہی ہمیں صحیح راہنمائی عطا کرتی ہے ۔ ایک ایسی ایمانی قوت جس سے دل سکون پاتے ہیں، روح مطمئن ہوتی ہے اور اس عمل سے ہی ہمارے تمام مرحومین کو صدقہ جاریہ پہنچتا ہے کہ ہر غم خوشی من جانب اللہ ہے اس کی دی ہوئی امانتیں اور رحمتیں ہیں جو کچھ عرصے ہمارے پاس ہوتی ہیں اور پھر اچانک واپس چلی جاتی ہیں وقت پر صبر ہی اللہ کو پسند ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہی ہمارا فرض ہے۔
یقین جانئے اسکے آنسو آنکھوں ہی میں جذب ہوگئے گرنے بھی نہ پائے کہنے لگی واقعی آپ صحیح کہہ رہی ہیں ۔ مجھے اب جو قرآن سے سمجھ آتا ہے اتنا شعور مجھے پہلے کبھی نہ آیا میں نے دل میں سوچا واقعی مجھے بھی میرے والد صاحب کی اچانک موت کے بعد مردوں کی صحیح حیثیت اور محافظی مقام کا اندازہ ہوا تھا اور میں سب کے سہا گوں کیلئے دعا گو رہتی ہوں پھر اچانک والدہ محترمہ کی موت نے میرے ایمان کو مزید بڑھا دیا اور مجھے تعلقات کی اہمیت بڑوں کی قربانیوں، ہمدردیوں ، صبر و استقامت کا وہ ناقابل بیان تجربہ ہوا کہ کیا بتا ئوں ہم ان کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہیں۔ آج جب جوان ہم سے کہتے ہیں کہ آج دنیا بدل چکی ہے اتنی فاسٹ ہوچکی کہ آپ انہیں سمجھیں گی تو میں سوچتی ہوں دنیا کی ترقی اور ایک ٹیکنالوجی نے انہیں کیسا گمان دیا ہے کہ خود تو خود اپنی اولادوں کو بھی ان کے سپرد کردیا ہے اور وقت کم پڑگیا ہے کام پورے نہیں ہوتے۔ کمائیوں میں گزارہ نہیں ہوتا ۔ جتنی اشیاء خوردنی اور مشاغل بڑھتے جا رہے اتنا ہی بندہ دنیا کی طرف کھینچتا جا رہا ہے۔
آسائشیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں پھر اچانک سب سے متحرک شے جاندار ختم ہو کر رکنے لگتے ہیں بلکہ ایسے رکتے ہیں کہ پھر دنیا سدھار جاتے ہیں مگر دنیا ویسے ہی چلتی رہتی ہے ۔ ہم اپنی زندگی میں ہر تھوڑی دیر بعد موبائل تو ضرور دیکھتے ہیں کہ کسی کا فون آیا ؟ کیا پیغام آیا؟ کونسا ٹویٹ آیا؟ مگر ان سے راہنمائی صرف دنیا کی حد تک ملتی ہے جبکہ دنیا کی زندگی کو نبھاتے ہوئے ہی ہمیں اپنی ابدی دنیا یعنی آخرت کی خبر رکھنی ہے اس لئے مستقل انتظام کرنا ہے اس مستقبل اور ابدی ٹھکانے کیلئے ہمیں اس دنیا میں ہی تیاری کرنی ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے ہماری زندگی کا وقت اتنا محدود ہے کہ اگلی نماز تک کا بھروسہ نہیں کہ پڑھی جائے گی یا پڑھائی جا ئے گی ؟ اور پھر بھی ہم اتنے غافل ۔ پچھلے دنوں ہم سورئہ بنی اسرائیل کی تفسیر پڑھ رہے تھے جس میں 14نکات تھے جو واقعی ہماری زندگی کے وہ سنہرے اصول تھے جن کو شعوری طور پر سمجھ کر ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔ظاہر ہے کھلی کتاب کی طرح جب قیامت کے روز اپنا نامئہ اعمال دیکھیں گے تو کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا نامئہ اعمال آج اپنا حساب لینے کیلئے تو خود ہی کافی ہے تو گویا وہی کیٹلاگ گویا کلامِ الٰہی کو شعوری طور پر پڑھے سمجھے بنا ہم کیسے اپنی زندگی سدھار سکتے ہیں ؟ راہنمائی تو قرآن کی تعلیم ہی دے گی نا ؟ ہا ں تو میں کہہ رہی تھی کہ وہ 14نکات میں پہلا یہ کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی، پھر والدین کے ساتھ نیک سلوک ، رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں کو انکا حق دو اور فضول خرچی سے بچو۔ رشتہ دار اور حاجت مندوں کی مدد نہ کرسکو تو نرمی سے جواب دو پھریہ کہ میانہ روی اختیار کرو ، رازق پر بھروسہ کرو اور اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ۔ زنا کے قریب بھی نہ بھٹکو کہ یہ برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ قتل نفس حرام ہے اسی طرح تم یتیم کے مال کے پا س نہ بھٹکو اسکا حق ادا کرو اور عہد کی پابندی تو لازمی کرو۔ناپ تول میں کمی نہ کرو یہاں تک کہ روئیے بھی درست رکھو ۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے ہر گز نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو کیونکہ تمہارے اعضاء تک جواب دہ ہونگے ۔ تکبر اللہ کی چادر ہے تمہیں کبھی زیب نہ دے گاگو یا تکبر نہ کرو ، اکڑو نہیں ۔ ساتھیوں یہ کتنی آسان سی باتیں لگتی ہیں۔
بارہا ہمارے والدین، اساتذہ، بڑے بہن بھائی، رشتہ دار ہم کو سمجھاتے رہتے ہیں اور ہم ہزار بار سنتے بھی ہیں سمجھتے بھی ہیں مگر عملی طور پر !!! کم ہی دیکھتے ہیں اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے ۔ آمین۔ آج ہمارے معاشرے میں کیا کچھ ہورہا ہے؟ ہم کہاں کہاں دھوکا کھا رہے ہیں اور خود دھوکا دے رہے ہیں بندہ خود جانتا ہے تو پھر کیا مکافاتِ عمل سے واقف نہیں ؟ یہاں میرا مطلب صرف یہ تھا ساتھیوں کہ آج کل ہم تمام ہی لوگ بڑے بچے سب کے سب میڈیا کے مارے ہوئے ہیں موبائل زدہ ہوگئے ہیں کہ اپنوں سے زیادہ ان خرافات کو وقت دیتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے میاں بیوی تک پرائے ہوگئے ہیں ۔ ایک میری دوست کہنے لگی کہ میرے میاں میری بات سنتے ہی نہیںموبائل میں اتنا کھوئے ہوتے ہیں کہ میری کہی سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ میرا تو بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا ہے۔ پھر تو تو میں میں ہونے لگتی ہے ماحول بگڑ جاتا ہے کہیں بچوں سے الجھتے ہیں کہیں بیٹیوں کو دھمکاتے ہیں۔ یہی حال عورتوں، لڑکیوں کا ہے موبائل میں خوش ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے دیکھے ! ماں کو تنگ کر رہے ہیں باپ کو پریشان کر رہے ہیں۔ کھانا نہیں ، سونا نہیں، موبائل نکال کر دیا خوش تو ہم کیا کر رہے ہیں ایسے تو کب تک چلے گا ؟ کیسے چلے گا؟ ہم تو اس ٹیکنالوجی کے غلام ہوتے جا رہے ہیں اس لئے مقامِ فکر ہے، فکر آخرت کریں۔
اللہ سے راہنمائی مانگیں، ہدایت مانگیں جو ہمیں اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہی مل سکتی ہے۔ قرآنی تعلیم ہی ہمیں وہ صحیح راہنمائی عطا کرے گی جس کی وجہ سے ہم اپنی زندگی سدھار سکتے ہیں اور خرافات سے نکل کر راہِ راست پر آسکتے ہیں۔ بار بار اسے روزانہ صبح شام پڑھنا ہے ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خود صحیح راہنمائی قرآنی علم سے حاصل کریں اور آگے بڑھائیں۔ آمین
میں مل سکتی ہے
لطیف النساء
انسان دنیا میں کتنی بھی ترقی کرلے ، کوئی بھی عہدہ حاصل کرلے ، کتنا ہی کمالے ، ہزاروں نوکر چاکر رکھ لے ، بلڈنگیں بنا لے۔ مگر پھر بھی اکثر و بیشتر اسے دل کا اطمینان نصیب نہیں ہوتا ، کوئی نہ کوئی فکر ، ٹینشن ، بیماری یا پسندیدہ خوراک یا مشاغل سے پرہیز کرنا پڑتا ہے ۔ دل کا سکون ہی تلاش کرتا رہتا ہے ۔ بسا اوقات نیند لانے والی گولیاں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں ۔ عموماً بڑی عمر کے لوگ زیادہ اس کیفیت سے گزرتے ہیں جبکہ جوان اپنی مصروفیات میں مست ہوتے ہیں۔
مگر سکون اور اطمینان صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو صحیح رہنمائی کیلئے شروع سے ہی اللہ کی نازل کردہ کتاب “قرآن”سے جڑے ہوتے ہیں ۔ احکام الٰہی کی پابندی کرتے ہیں ۔ شریعت پر چلنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں اور عموماً داعی کی حیثیت سے لوگوں کو بھی یہی راہنمائی دیتے ہیں صحیح راہنمائی قر آن کی تعلیم سے ہی مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ انتہائی پریشانی یا مصیبت میں جب بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے دعا مانگتا ہے۔ قرآن پڑھتا ہے ترجمہ اور تفسیر سمجھنے کی اپنی سی کوشش ہی کرتا ہے کہ اس کو قلبی سکون ملنے لگتا ہے۔
زندگی کے اتنے بکھیروں میں انسان کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ مگر اچانک کو ئی واقعہ ، کسی کی موت، کوئی حادثہ ، اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ زندگی بھی کیا عجیب چیز ہے ۔ایک پل میں ختم ! گویا سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔ کل شام تیسر ی منزل سے ایک محترمہ ہمارے گھر آئیں دوبیٹوں کی ماں ہیں جو سترہ سال سے کم کے ہیں ۔ میرے شوہر کی طبیعت معلوم کرنے ۔ انتہائی اداس لگ رہی تھیں میں نے پوچھا خیریت ہے آپ کیسی ہیں؟ کہنے لگیں والدہ کا اچانک انتقال ہو گیا تھا ، سوا مہینے بعد آئی ہوں ۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی اور انتہائی افسوس بھی کہ مجھے خبر تک نہ ہوئی ۔ ہرکوئی یہی سمجھتا رہا کہ فلاں نے انہیں بتا دیا ہوگا ۔ وہ کہنے لگیں انتہائی غیر متوقع موت تھی میں اکلوتی بیٹی ہوں اور دو بھائی ہیں ۔ میرے لئے امی ہی سب کچھ تھیں میں بہت ڈر رہی ہوں اور یہ صدمہ برداشت نہیں کر پارہی ہوں ۔موت یوں اچانک جدائی ڈال دے گی میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ میں نے کہا انتہائی غم اور انتہائی خوشی میں بھی ہمیں صبر کرنے اللہ کی حمد کرنے اور اسکی تسبیح کرتے رہنے کا حکم ہے کہ اس کے فضل سے ہی سارے کام انجام پاتے ہیں اور ہمیں نہ صرف آگاہی دیتے ہیں بلکہ آخرت کی تیاری کے ڈھنگ سکھانے اور اللہ کی نازل کردہ کتاب سے راہنمائی لینے پر آمادہ کرتے ہیں کہ کتابِ الٰہی کی تعلیم ہی ہمیں صحیح راہنمائی عطا کرتی ہے ۔ ایک ایسی ایمانی قوت جس سے دل سکون پاتے ہیں، روح مطمئن ہوتی ہے اور اس عمل سے ہی ہمارے تمام مرحومین کو صدقہ جاریہ پہنچتا ہے کہ ہر غم خوشی من جانب اللہ ہے اس کی دی ہوئی امانتیں اور رحمتیں ہیں جو کچھ عرصے ہمارے پاس ہوتی ہیں اور پھر اچانک واپس چلی جاتی ہیں وقت پر صبر ہی اللہ کو پسند ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہی ہمارا فرض ہے۔
یقین جانئے اسکے آنسو آنکھوں ہی میں جذب ہوگئے گرنے بھی نہ پائے کہنے لگی واقعی آپ صحیح کہہ رہی ہیں ۔ مجھے اب جو قرآن سے سمجھ آتا ہے اتنا شعور مجھے پہلے کبھی نہ آیا میں نے دل میں سوچا واقعی مجھے بھی میرے والد صاحب کی اچانک موت کے بعد مردوں کی صحیح حیثیت اور محافظی مقام کا اندازہ ہوا تھا اور میں سب کے سہا گوں کیلئے دعا گو رہتی ہوں پھر اچانک والدہ محترمہ کی موت نے میرے ایمان کو مزید بڑھا دیا اور مجھے تعلقات کی اہمیت بڑوں کی قربانیوں ، ہمدردیوں ، صبر و استقامت کا وہ ناقابل بیان تجربہ ہوا کہ کیا بتا ئوں ہم ان کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہیں ۔ آج جب جوان ہم سے کہتے ہیں کہ آج دنیا بدل چکی ہے اتنی فاسٹ ہوچکی کہ آپ انہیں سمجھیں گی تو میں سوچتی ہوں دنیا کی ترقی اور ایک ٹیکنالوجی نے انہیں کیسا گمان دیا ہے کہ خود تو خود اپنی اولادوں کو بھی ان کے سپرد کردیا ہے اور وقت کم پڑگیا ہے کام پورے نہیں ہوتے ۔ کمائیوں میں گزارہ نہیں ہوتا ۔ جتنی اشیاء خوردنی اور مشاغل بڑھتے جا رہے اتنا ہی بندہ دنیا کی طرف کھینچتا جا رہا ہے۔
آسائشیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لیتیں پھر اچانک سب سے متحرک شے جاندار ختم ہو کر رکنے لگتے ہیں بلکہ ایسے رکتے ہیں کہ پھر دنیا سدھار جاتے ہیں مگر دنیا ویسے ہی چلتی رہتی ہے ۔ ہم اپنی زندگی میں ہر تھوڑی دیر بعد موبائل تو ضرور دیکھتے ہیں کہ کسی کا فون آیا ؟ کیا پیغام آیا؟ کونسا ٹویٹ آیا؟ مگر ان سے راہنمائی صرف دنیا کی حد تک ملتی ہے جبکہ دنیا کی زندگی کو نبھاتے ہوئے ہی ہمیں اپنی ابدی دنیا یعنی آخرت کی خبر رکھنی ہے اس لئے مستقل انتظام کرنا ہے اس مستقبل اور ابدی ٹھکانے کیلئے ہمیں اس دنیا میں ہی تیاری کرنی ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے ہماری زندگی کا وقت اتنا محدود ہے کہ اگلی نماز تک کا بھروسہ نہیں کہ پڑھی جائے گی یا پڑھائی جا ئے گی ؟ اور پھر بھی ہم اتنے غافل ۔ پچھلے دنوں ہم سورئہ بنی اسرائیل کی تفسیر پڑھ رہے تھے جس میں 14نکات تھے جو واقعی ہماری زندگی کے وہ سنہرے اصول تھے جن کو شعوری طور پر سمجھ کر ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔ظاہر ہے کھلی کتاب کی طرح جب قیامت کے روز اپنا نامئہ اعمال دیکھیں گے تو کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا نامئہ اعمال آج اپنا حساب لینے کیلئے تو خود ہی کافی ہے تو گویا وہی کیٹلاگ گویا کلامِ الٰہی کو شعوری طور پر پڑھے سمجھے بنا ہم کیسے اپنی زندگی سدھار سکتے ہیں ؟ راہنمائی تو قرآن کی تعلیم ہی دے گی نا ؟ ہا ں تو میں کہہ رہی تھی کہ وہ 14نکات میں پہلا یہ کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی، پھر والدین کے ساتھ نیک سلوک ، رشتہ داروں اور مسکینوں اور مسافروں کو انکا حق دو اور فضول خرچی سے بچو۔ رشتہ دار اور حاجت مندوں کی مدد نہ کرسکو تو نرمی سے جواب دو پھریہ کہ میانہ روی اختیار کرو ، رازق پر بھروسہ کرو اور اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ۔ زنا کے قریب بھی نہ بھٹکو کہ یہ برا فعل اور بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ قتل نفس حرام ہے اسی طرح تم یتیم کے مال کے پا س نہ بھٹکو اسکا حق ادا کرو اور عہد کی پابندی تو لازمی کرو۔ناپ تول میں کمی نہ کرو یہاں تک کہ روئیے بھی درست رکھو ۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے ہر گز نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو کیونکہ تمہارے اعضاء تک جواب دہ ہونگے ۔ تکبر اللہ کی چادر ہے تمہیں کبھی زیب نہ دے گاگو یا تکبر نہ کرو ، اکڑو نہیں ۔ ساتھیوں یہ کتنی آسان سی باتیں لگتی ہیں۔
بارہا ہمارے والدین، اساتذہ، بڑے بہن بھائی، رشتہ دار ہم کو سمجھاتے رہتے ہیں اور ہم ہزار بار سنتے بھی ہیں سمجھتے بھی ہیں مگر عملی طور پر !!! کم ہی دیکھتے ہیں اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے ۔ آمین ۔ آج ہمارے معاشرے میں کیا کچھ ہورہا ہے ؟ ہم کہاں کہاں دھوکا کھا رہے ہیں اور خود دھوکا دے رہے ہیں بندہ خود جانتا ہے تو پھر کیا مکافاتِ عمل سے واقف نہیں ؟ یہاں میرا مطلب صرف یہ تھا ساتھیوں کہ آج کل ہم تمام ہی لوگ بڑے بچے سب کے سب میڈیا کے مارے ہوئے ہیں موبائل زدہ ہوگئے ہیں کہ اپنوں سے زیادہ ان خرافات کو وقت دیتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے میاں بیوی تک پرائے ہوگئے ہیں ۔ ایک میری دوست کہنے لگی کہ میرے میاں میری بات سنتے ہی نہیںموبائل میں اتنا کھوئے ہوتے ہیں کہ میری کہی سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ میرا تو بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا ہے ۔ پھر تو تو میں میں ہونے لگتی ہے ماحول بگڑ جاتا ہے کہیں بچوں سے الجھتے ہیں کہیں بیٹیوں کو دھمکاتے ہیں ۔ یہی حال عورتوں ، لڑکیوں کا ہے موبائل میں خوش ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے دیکھے ! ماں کو تنگ کر رہے ہیں باپ کو پریشان کر رہے ہیں ۔ کھانا نہیں ، سونا نہیں ، موبائل نکال کر دیا خوش تو ہم کیا کر رہے ہیں ایسے تو کب تک چلے گا ؟ کیسے چلے گا ؟ ہم تو اس ٹیکنالوجی کے غلام ہوتے جا رہے ہیں اس لئے مقامِ فکر ہے ، فکر آخرت کریں۔
اللہ سے راہنمائی مانگیں، ہدایت مانگیں جو ہمیں اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہی مل سکتی ہے ۔ قرآنی تعلیم ہی ہمیں وہ صحیح راہنمائی عطا کرے گی جس کی وجہ سے ہم اپنی زندگی سدھار سکتے ہیں اور خرافات سے نکل کر راہِ راست پر آسکتے ہیں ۔ بار بار اسے روزانہ صبح شام پڑھنا ہے ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خود صحیح راہنمائی قرآنی علم سے حاصل کریں اور آگے بڑھائیں۔ آمین