محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان

‏ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں بھوپال (انڈیا) میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر صاحب 1952ء میں پاکستان منتقل ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران 1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی پھر اعلی تعلیم کی غرض سے جرمنی اور ہالینڈ تشریف لے گئے۔

انہوں نے ‏1967 میں ہالینڈ سے میٹالرجی میں ماسٹر اور 1972 میں بیلجیم سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان واپسی کے بعد 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز قائم کی۔ انہوں نے ریسرچ کے میدان میں کمال مہارت کا مظاہرہ کیا اور جلد ہی پاکستان کے مایہ ناز سائنسدانوں میں اپنا نمایاں مقال حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں 1981 میں اس لیبارٹری کا نام ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا گیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک میں ایک ہیجان کی صورت حال پیدا ہوگئی کیوں کہ ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے دشمن ملک عرض وطن کو ہڑپنے کے خواب دیکھنے لگا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں مصروف ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا۔ وہ پاکستان کی نوجوان نسل کو علمی میدان میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے اور انہوں نے 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھ دی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی بے پناہ قومی خدمات کے اعتراف میں 1996 اور 1999 میں نشان امتیاز سے نوازا گیاجبکہ اس سے قبل 1989 میں حکومت پاکستان کی جانب سے حلال امتیاز دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قائم کردہ لیبارٹری نے پاکستان کیلئے 1000 کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسی ادارے نے بعدازاں 25 کلو میٹر تک مار کرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان پر ایٹمی معلومات فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جس کا ان سے جبراً اعتراف بھی کروایا گیا۔

سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی خود نوشت”سچ تو ہے ” میں لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف نے مجھے اور ایس ایم ظفر کو بلایا اور کہا کہ ہم اے کیوخان کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ قوم سے معافی مانگیں ۔بعد ازاں مجھ سے کہا گیا کہ میں ڈاکٹر قدیر خان سے میں اکیلا ہی ملوں، ڈاکٹر اے کیوخان سے ملاتو انہوں نے کہا کہ مجھ پر جوہری مواد کی چوری کرنے کاالزام جھوٹا ہے ،میں نے کوئی چیز نہیں بیچی اور نہ ہی میں نے کوئی رقم لی ہے۔ ڈاکٹراے کیوخان مجھے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے اور فرنیچر دکھایاکہ میری اہلیہ کے جہیز کا ہے، مجھ میں تو فرنیچر خریدنے کی استطاعت بھی نہیں۔

تاہم ڈاکٹر اے کیوخان نے معافی مانگ کر سارا الزام اپنے سرلے لیا یہ بہت بڑی قربانی تھی اور اس ایثار وقربانی سے پوری قوم کے دل میں ان کی عزت بہت بڑھ گئی تھی۔ محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظر بندی کی صعبتوں کے ساتھ 20 سال گزارنا پڑنے۔ ان کو رشتہ داروں اور اقرباء سے ملنے کی اجازت نہیں تھی جس کے خلاف انہوں نے متعدد بار پاکستان کی عدالتوں میں درخواستیں دیں۔ آخری درخواست انہوں نے دو سال قبل دی کہ ان کی نظربندی کو ختم کیا جائے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کئے جائیں۔ سپریم کورٹ اس درخواست پر تاحال فیصلہ نہ کر سکی اور وہ اسی حالت میں پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہو کر 86 برس کی عمر میں خالق حقیق سے جا ملے۔

حصہ
mm
انجینئر محمد ابرار ایم فل سٹرکچرل انجینرنگ کے طالب علم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور روزنامہ لاہور پوسٹ کے ڈسٹرکٹ رپورٹر ہیں۔ کافی عرصہ سے حالات حاظرہ،مذہبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مختلف ویب پیجز پر لکھتے ہیں۔ جسارت کے لئے بطور خاص لکھ رہے پیں۔