چین اور امریکاکے درمیان حالیہ دنوں سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں ہونے والے مذاکرات میں فریقین نے دوطرفہ تعلقات کو درست اور مستحکم ترقی کے صحیح راستے پر لانے کے لیے مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔یہ اتفاق رائے چین کے اعلیٰ سفارتی اہلکار یانگ جے چھی اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے درمیان بات چیت کے دوران طے پایا۔دونوں فریقوں نے چین امریکا تعلقات کے حوالے سے مفصل اور جامع تبادلہ خیال کیا جبکہ مشترکہ تشویش کے اہم عالمی و علاقائی امور پر بھی بات چیت کی گئی۔
حالیہ برسوں میں چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات شدید اتار چڑھاو کا شکار رہے ہیں۔تجارتی محاز آرائی کے ساتھ ساتھ وبائی صورتحال کی وجہ سے بھی دونوں بڑی طاقتوں کے تعلقات میں تناو دیکھا گیا ہے۔عالمی منظر نامے میں دونوں ممالک کی اپنی اپنی جداگانہ اہمیت ہے۔دونوں ممالک نہ صرف مضبوط معیشتوں کے حامل ہیں بلکہ عالمی و علاقائی امور کے حوالے سے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ مذاکرات کو دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ بدونوں فریقوں کے مابین اسٹریٹجک رابطہ سازی چین اور امریکہ کے تعلقات کو دوبارہ ٹریک پر لانے کے لیے اہم ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کے مابین کوآپریٹو تعلقات کی ترقی کسی ایک فریق کے مفاد میں نہیں بلکہ دونوں فریقوں کے مشترکہ مفادات میں ہے۔حالیہ ملاقات کے دوران بھی چین نے واضح طور پر چین امریکہ تعلقات کے حوالے سے استعمال کردہ اصطلاح ”مسابقت” کی مخالفت کی ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ دونوں ممالک کا کئی اعتبار سے ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ معیشت اور تجارت کی ہی مثال لی جائے تو، چین اور امریکہ کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 1979 میں 2.5 بلین ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے 2020 میں تقریباً 629.5 بلین ڈالرز ہو چکا ہے۔ چین میں امریکن چیمبر آف کامرس نے حال ہی میں ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق چین میں کاروبار کرنے والی امریکی کمپنیوں کی کاروبار اور منافع کے حوالے سے توقعات وبا سے پہلے کی سطح پر لوٹ آئی ہے، جو تین سالوں میں بلند ترین مقام پر پہنچ چکی ہے۔
چین نے متعدد مرتبہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا امریکہ کو چیلنج کرنے یا اس کی جگہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بلکہ چین خود مسلسل بہتری و ترقی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ بالادستی یا تسلط کبھی بھی چین کی اسٹریٹجی نہیں رہی ہے بلکہ چین کی واحد حکمت عملی صرف ترقی ہے جس کا مقصد چینی عوام کو اچھی زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے۔
چین نے امریکی صدر جو بائیڈن کے چین کے حوالے سے حالیہ مثبت بیان کو بھی سراہا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا کا چین کی ترقی کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ”نئی سرد جنگ” کا خواہاں ہے۔چین بھی چاہتا ہے کہ امریکہ ایک دانشمندانہ چائنا پالیسی” اپنائے اور چین کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات کے احترام کے ساتھ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ سودمند تعاون کا راستہ اپنائے۔حالیہ مذاکرات کے دوران چین کی جانب سے تائیوان، ہانگ کانگ، سنکیانگ، تبت اور انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ سمندری مسائل کے بارے میں بھی چین کے ٹھوس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے امریکا پر زور دیا گیا کہ وہ چین کی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا حقیقی احترام کرے۔
اس سے قبل 10 ستمبر کو دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی تھی جس میں چینی صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کو وسیع وژن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو آگے دیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، اسٹریٹجک اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دونوں ممالک اور دنیا بھر کے عوام کی بھلائی کے لیے تعلقات کو جلد از جلد مستحکم ترقی کی صحیح راہ پر واپس لانا چاہیے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ مزید واضح تبادلے اور تعمیری بات چیت کے لیے تیار ہے تاکہ اہم اور ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی جاسکے۔ جوبائیڈن کے رواں برس جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے چینی سال کے موقع پر دونوں رہنماؤں نے پہلی مرتبہ فون پر بات چیت کی تھی اور تنازعات سے بچنے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا تھا۔گذشتہ ماہ ہی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دونوں ممالک کے خصوصی ایلچیوں کے چین کے شہر تھیان جن میں مذاکرات ہوئے تھے جس میں دونوں فریقوں نے مذاکرات اور مشاورت جاری رکھنے، موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے موئثر طور پر نمٹنے کے لیے عملی تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا تھا۔
سو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دونوں بڑے ممالک کے درمیان امریکی شہر اینکرج سے لے کر اب زیورخ تک، مذاکرات اور آمنے سامنے ملاقاتوں نے بات چیت اور تعاون کے لیے دونوں فریقوں کی آمادگی ظاہر کی ہے، جس کا دنیا انتظار کر رہی ہے۔فریقین کا حتمی مقصد تنازعات اور محاذ آرائی سے بچنا ہے، اور باہمی سودمند اور مشترکہ مفاد پر مبنی ٹھوس ثمرات کی جستجو ہے۔
حقائق ثابت کرتے ہیں کہ چین اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کی محاز آرائی دونوں ممالک اور دنیا کے لیے شدید نقصان دہ ہو گی جبکہ چین امریکہ تعاون دونوں ممالک اور دنیا کو فائدہ پہنچائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت تعمیری اور باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے کے لیے انتہائی سازگار ہے۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بات چیت اور رابطوں کو برقرار رکھا جائے تاکہ دونوں بڑی طاقتوں کی جانب سے دنیا کو درپیش بڑے مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کیا جا سکے۔