جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

 

پچھلے دنوں ایک تحفے کیلئے “ڈالمن مال”جانے کا اتفاق ہوااور وہاں بھی ہم سیدھے جنید جمشید (مرحوم) کے ایک اسٹال پر گئے مگر جیسے ہی اندر گئے کچھ دیر کیلئے نوجوان لڑکی کو دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہوگی ۔ اف اللہ ! اسکا حلیہ اللہ کی پناہ! کہتے ہیں برائیوں کی تشہیر منع ہے مگر جب برائیاں خودڈنکے کی چوٹ پر اشتہاری بن جائیں تو اس تباہی بربادی نسلوں کی اخلاقی گراوٹ کا ذمہ دار کس کو کہا جائے؟

محترمہ نے چھوٹا سا فراک اور موزے نما اسکن ٹائیٹ جرسی یا شاید پتلے نائیلون کی ٹا ئیٹ پہنی ہوئی تھی۔ خاصی سڈول جسم کی خوبصورت کھلے بالوں والی لڑکی تھی۔ آپ یقین مانئیے سب کچھ دکھ رہا تھا اور لوگ کیا گاہک کیا خریدار وہ تو سب کی نظروں میں تھی۔ لوگ تو کیا وہاں کام کرنے والے مرد حضرات، نمبر دینے والے معصوم لڑکے سب کے سب اسے ہی دیکھ رہے تھے اور وہ محترمہ تھی کے بے حیائی کا مکمل نمونہ صرف لباس کے حوالے سے ہی نہیں، انداز، چال ڈھال، گفتار میں بھی کمال درجے کی اداکار تھیں گویا دعوت عام تھی! مجھے فوراً امی کا کہا ہوا یہ شعر یاد آگیا وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ

اچھی صورت بھی کیا عجب شے ہے۔

جس نے ڈالی بری نظر ڈالیـ

میری امی انتہائی خوبصورت تھیں اور میرے ابا مرحوم میری امی مرحومہ کو اکثر یہ شعر سناتے تھے بقول امی کے وہ نئے لوگوں کے سامنے آتے گھبراتی تھیں کہ کہیں ابا کو برا نہ لگ جائے۔ اللہ تمام لوگوں کے والدین کو جنت الفردوس عطا فرمائے (آمین)۔ اگرچہ اُس زمانے میں بھی وہ بڑی سی چادر لیا کرتی تھیں مگر حجاب نہیں کیا کرتی تھیں اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے مگر یہی بے حجابی بلا جھجک بچوں میں چلی آتی ہے آج ہمیں اس کا شدت سے احساس بھی ہے اور ساتھ ہی افسوس بھی کہ کیوں نہ ہمیں شعور اس وقت آیا اور ہم آج بھی خائف اور تائب ہیںکیونکہ حیا تو لباس کا ہی نہیں کردار کا وصف ہے جس سے آج تک کے اکثر والدین بے بہرہ ہیں کیونکہ انہیں یا تو دین کا صحیح شعور نہیں، یا خوف خدا نہیں ورنہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ برائی یوں سر چڑھ کر نہ بولے۔ آج ہمارے سامنے ارد گرد، ٹی وی پر، موبائل پر، گھر گھر امیر غریب ہر طبقے میں بے حیائی کی کھلی بیماری پائی جا رہی ہے اور اتنی بے باکی اور سفاکی سے کہ لگتا ہے اس کو برائی گراندا ہی نہیں جا رہا! میڈیا، والدین، اساتذہ، دینی اسکالرز، مرد حضرات اور خود خواتین سب ہی اس بے حیائی اور فحاشی کے ذمہ دار ہیں جو اپنا رول کہیں بھی نہیں نبھا رہے۔

حکومتی ادارے حکومتی ایجنسیاں اور ملکی قوانین بنانے والے نافذ کرنے والے سخت ناکام ہیں۔ اسی لئے آئے دن شرمناک واقعات مسلسل جنم لے رہے ہیں۔ چار مہذب بزرگ لوگ بھی ہوں تو ان کے درمیان جو ماحول یا گفتگو دیکھا گیا ہے وہ تک اس بے حیائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میڈیا ٹاک شوز تو اسکی کھلی تشہیر کر رہے ہیں۔

مخلوط تعلیم، مخلوط نوکریوںاور مخلوط تمام ٹی وی پروگراموں میں یہ چیزیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ لگتا ہے باقاعدہ اسے بڑھاوا دیا جا رہا ہواور واقعی ایسا ہے بھی بچے بچیاں جتنی بے باک اور کھلی ہوئی آج ہیں اس سے پہلے کبھی کہیں نہ تھیں۔ جو زبان جو اندازِ تکبر اور جو اندازِ بیان تیز اور چرب زبان عام بول چال میں بچے استعمال کرتے ہیں بلا چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے چکر میں انکی اس بے حیائی اور بدتمیزی کو چپ سادھ کر سہہ جاتا ہے جو ایک اور گناہ ہے مگر اس کو کچھ نہیں کہتا گویا گندگی میں نہانے کے لئے چھوڑ دیتا ہے جس سے وہ مزید بے باک ہوجاتا ہے کہ کیسے لاجواب کیا آنٹی کو انکل کو! فخریہ کہتے ہیں اور والدین ان کو شہ دیتے ہیں۔

برائی پر رکتے نہیں بلکہ پھول جاتے ہیں کہ کیا اچھا کام کیا اگرچہ اس برائی کا دس فیصد بھی کوئی ان سے کرجائے تو تن بدن میں آگ لگ جائے اور تم روٹھے ہم چھوٹے کی بنیاد پر تعلقات یہیں قطع ہوجاتے ہیں چاہے حکمت سے ہی کیوں نہ بات کی جائے مگر کیونکہ دل صاف نہیں تو پھر الفاظ، نظر، نصیحت، وصیت سب بے سود ہے۔ آج کل تو سڑکوں پر ہی حیا کے پردے چاک ہوتے وہ نظارے نظر آتے ہیں جن پر یقینا جرمانے لگنے چاہئے ایک اسکوٹر پر بائیک پر تین تین عورتیں ایک بندے کے ساتھ چپکی ہوئی نا شائستہ لباس میں اتنی زیادہ نظر آتی ہیں کہ کیا بتا ئوں؟ پھر ان کے بیٹھنے کے انداز بھی مزید واہیات نہ جانے کیوں اس کو مجبوری سمجھ کر ضرور کردیا گیا ہے۔

کل ہی اسپتال واپسی پر ایک بائیک پر ایک فیملی کو دیکھا کوئی دس بارہ سال کی بچی بلا آستین موٹی تازی باپ یا بھائی کے ساتھ آگے بیٹھی ہوئی اور ایک بچی درمیان میں اور اس کی ماں پیچھے موٹی تازی وہی ٹائٹ شرٹ اور لیگنگ میں محو سفر اور بد نظر بنی ہوئی تھیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ کیسے اتنے بگڑ گئے ہیں لوگ؟ کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ان کی بچیوں نے، بیویوں نے، بہنوں نے کیا پہنا ہوا ہے؟ کیسے اس حلیے میں انہیں باہر جانے دیں نا کہ خود ان کے ساتھ جار ہے ہیں؟ کیا کوئی فلمی شوٹنگ پر ہیں یا ننگ دھڑنگ کوئی اعزا ز لینے جا رہے ہیں کہ اتنے ہشاش بشاش بے باک ہیں انہیں تو کھلی سزائیں ملنی چاہئے۔

مرد حضرات دیکھیں تو انکا بھی یہی حال ہے۔ چڈے پہنے ہوئے، چہرے چھیلے ہوئے، بھنوئیں بنی ہوئی، سرپر عجیب طرح کے بال، منہ پر عجیب و غریب انداز کی ہلکی گہری تراش کے ساتھ داڑھی یا فنکاری، کہیں کپڑے بھی ٹائس کی فام میں، رنگ برنگے بیگز اور جوتوں کے ساتھ متضاد پردہ دار خواتین کے ساتھ کہیں جل پریوں کے ساتھ سرِ عام بازاروں میں، شادی بیاہ میں، تقریبات اور شاپنگ مالز میں نظر آتے ہیں تو دل جلتا ہے اب تو حد ہی ہوگئی ہے؟ سارا سارا دن لڑائی جھگڑے والے ٹاک شوز آتے ہیں ان کو دیکھ کر آوے کا آوا ہی بگڑتا جا رہا ہے۔ نہ الفاظ میں حیا ہے، نہ انداز میں، نہ لباس میں، نہ کردار میں تو پھر حیا کہاں ہے یہ تو ایک استعارہ ہے، علامت ہے، عزت کی، عبدیت کی، وقار کی، تحفظ کی، آنے والی نئی نسل کا یہ تو حسین اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اسے یوں برباد کرکے ہم والدین اور ذمہ داران گناہ سرزد کر رہے ہیں۔

حکومتی سرپرستی، لاء اینڈ آرڈرز نام کی تو کوئی شے ہی نہیں! یہ کتنے افسوس کی بات ہے؟ پردہ اور پردہ داری بے معنی۔ اسلامی دینی پروگرامز میں تک مبلغوں کے درمیان سجی سنوری عورتوں کا ادائوں کے ساتھ ٹاک شوز شرم ناک نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمیںہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارا ایمان حیا سے مشروط ہے۔ اگر ہم میں حیا نہیں تو کچھ نہیں! جائزہ لینے اور احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر کام میں ڈنڈی مارنا حیا کے خلاف ہے۔ بے ایمانی، بد عہدی، اخلاقی گراوٹ، بدزبانی، بدکلامی، بے باکی، ہڈدھرمی، تکبر اکڑ، بد تہذیبی اور بدکرداری، کوئی فنکاری نہیں ہے ساتھیوں سب کی سب بے حیائی ہی تو ہے۔

ان تمام برائیوں کی جڑ ہی رب سے بے خوفی اور آخرت سے بے خبری ہے۔ ورنہ خالق کی عطا کردہ ہر نعمت صحت، جوانی، حسن، روزی، روزگار، کاروبار، مکان دکان، رشتہ داریاں سب کے ہوتے ہوئے اسلامی ملک اور مسلمان ہوتے ہوئے الحمدللہ یہ ہمارا طرزِ عمل کسی صورت خود ہمارے اپنے لئے درست نہیں تو معاشرہ کیسے پنپے گا؟ اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے تو ہمیں خود با حیا اور با کردار ہونا ہوگا اور بہترین تحفہ اور وراثت میں اپنی نسلوں کو بہترین دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ حسنِ اخلاق کا عملی نمونہ دیکر انہیں مستقل بنیادوں پر رب سے، قر آن سے، شریعت سے جوڑے رکھنا ہوگا۔ حکومت کو بھی اولین ترجیح دینی ہوگی تا کہ دنیا و آخرت سنور جائے اور مرنے سے پہلے سدھر جائیں۔