ایک پراسرا خوف ہے ایک انجانہ دھڑکا ہے صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اور کیا عجیب پردہ ہے کہ گھروں میں چھپ کر بیٹھے ہیں۔ اللہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ آمین کیونکہ ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ ہمارے ہی کرتوتوں کی سزا ہوتی ہے۔ ساری دنیا ہی کرونا کی لپیٹ میںہے اور کسی ڈرامے کی قسطوںکی طرح اس کی بھی لہریں آرہی ہیں۔ آہستہ آہستہ سب ہلکان ہوئے جارہے ہیں کہ کیا کریں؟ کیا نہ کریں۔ تقریبات پھیکی، تہوار سونے، کاروبار خسارے کا شکار اور تعلیم اس کی کسی کو پرواہ ہی نہیں اس کی الگ کہانی ہے بڑی ہی تباہی ہے نہ ہی گھر میں اچھی پڑھائی اور نہ ہی اداروں میںپڑھائی صرف اور صرف پلاننگ جو بار بار گرگٹ کے رنگوں کی طرح اپنے تیور بدل بدل کر پورے ماحول کو کنفیوز کئے ہوئے ہیں۔
آج ہی کیا مجھے تو پہلے ہی سے یہ خیال آرہا ہے کہ گھروالوں کو کیسے مشغول و معروف کیا جائے تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ فراغت کو مصروفیت سے یا مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو۔ یقین جانئے زندگی کے کام تو چلتے ہی رہتے ہیں مگر صحیح معنوں میں درست طریقے سے عبادات اور قرآن کی تلاوت، ترجمے اور تفسیر کی باری آکر نہیں دیتی اس موضوع پر تو گھر والے سوائے چند کے اکٹھے ہی نہیں ہوتے تو ہمیں اس ایمرجنسی لاک ڈائون میں کیا کرناچاہئے۔ خود اپنا ہی احتساب کریںہم خود کیا ہیںکتنی کمیاں کوتاہیاں ہیں ہم میں، ہم اسے پورا کرسکتے ہیں۔ اپنے بچوں، بہن بھائیوں پر بھرپور توجہ دیکر ان کو قرآن کے حقوق سمجھا سکتے ہیں انہیں اللہ سے اور اچھی طرح جوڑ سکتے ہیں۔ تعلقات کو مضبوط اور مئوثر بنا کر تعلیم و تدریس کے کام کو بہتر طریقے سے اپنے ہی اہل خانہ کے ساتھ ملکر مستقل طور پر جاری کرسکتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ اپنا گروپ پکا کریں یعنی پہلے اپنے گھر سے محبت اور خلوص کے ساتھ مل بیٹھ کر عبادات، اخلاقیات، قرآن، تجوید، تذکیر اور دروس سننے کا انتظام کرسکتے ہیں اپنے انداز اور اپنے اہل خانہ کے اندر اللہ کی محبت اور اس کی جواب دہی یعنی خدا خوفی کا پکا سچا جذبہ راسخ کرواسکتے ہیں۔
بچوں کے ساتھ قصص الانبیاء شیئر کرے ان کی اور اپنی کردار سازی کرسکتے ہیںسب سے پہلے ان کے اندر فطری طور پر عبادات کے اوقات اور ان کی اہمیت کے پیشِ نظر تمام معاملات عملی تجربات سے کئے جاسکتے یعنی فجرکی نماز کو لازم بنانے کیلئے رات سے تیاری کہ جلد کھانا کھا کر عشاء کی باجماعت گھر ہی میں نماز اور اس کے بعد تذکیر، قصے کہانیاں دعائیں سب کا مئوثر انتظام کرے چاہے اس کیلئے نیٹ سے مدد لیں، چاہے زوم میٹنگ کریں مگر زیادہ سے زیادہ دس ساڑھے دس بجے سو جائیں تو صبح خودبخود ہر بندہ فجر سے کچھ وقت پہلے ہی اٹھ کر تہجد، نمازِ فجر اور پھر اذکار اور تلاوت ترجمہ تفسیر پڑھے۔ اشراق ادا کرکے ہلکا پھلکا ناشتہ کرے یا پہلے گھر ہی میں کچھ ورزش کرلے اور ناشتہ کرے چاشت پڑھے پھر چاہے چند منٹ آرام کرکے اسکول کا کام کرے اپنی کوتاہی مثلاً کسی بچے کو لکھنا نہیں آتا ۔ رفتار کم ہے یا غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں تو اسے اس کام کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام صفائی ستھرائی میں سب مل کر شریک ہوں اپنی صفائی سے لیکر پورے گھر کی صفائی، پودوں کا خیال، کچن کے کام مل جل کر تعاون سے کریں۔
خود کریں آگے بڑھکر کریں کیونکہ سمجھیں کہ مومن سست اور کاہل کبھی نہیں ہوتا لہٰذا ہر حال میں اکٹھے رہیں، ہر کام میںپھرتی بھی دکھائیں اور احساسِ ذمہ داری سے پورا کریں۔ ماں کی مدد کرنا اور انکا ہاتھ بٹانے میں خوشی محسوس کریں تو وہ بھی ڈھیروںکاموں میں تعاون کرکے انہیں نہ صرف آسان کردینگے بلکہ آپ کو ہر لحاظ سے بہترین کردار اور تعلیم و تربیت سے نوازنے کیلئے بہترین دوست بن جائیں گے آخر کو آپ ہی انکا سرمایہ ہو لہٰذا وہ آپ کو اپنے سے بھی اونچی اور باوقار باکردار بنانے میں مشغول ہو جائیں گے آپ بھی خود بخود ان سے ہر چیز شیئر کروگے اس طرح سے یہ لاک ڈائون آپکی فرصت کو مشغولیت میں تبدیل کردے گا آپ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ان ڈور گیمز کھیل سکتے ہو، ڈرا ئنگ یا اپنا ذاتی مشغلہ شیئر کرسکتے ہو اور والدین انہیں کوالٹی ٹائم دیکر ان کی گھتی سلجھا سکتے ہیں ان کے معاون و مددگار بن کر ان کے بہترین گائیڈز بن کر ان کی بہترین اصلاح کرسکتے ہیں جو انکا خاص مقصد ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کا موقع لے سکتے ہو کہ اس تیز رفتار دور میں آپ اپنے فیملی ممبرز کو کوالٹی ٹائم دے سکتے ہو اور گھر میں پہلے سے مقیم بزرگ بھی اپنے تجربات اورواقعات اور ایکٹوٹیز شیئر کرے انہیں بھی نہال کرسکتے ہو اور ان کے دکھ درد سمیٹ کر ان کی بہترین خدمت کرکے اپنی آخرت سنوار سکتے ہو۔ والدین جب اپنے بزرگ والدین یعنی نانا نانی، دادا دادی کی خدمت کرینگے ۔ خالہ پھوپھی کو نہلائیں گے، دھلائیں گے، کھلائیں گے، پلائیں گے اگر وہ کمزور یا بیمار ہیں تو یہ دیکھ کر بچوں، بچیوں کو بھی اپنے ساتھ سلانے سے ان کے اندر ہمدردی اور محبت کے جذبے جنم لینگے ساتھ ساتھ قرآنی احکام اور احادیث کے حوالے ان کے ایمان کو مضبوط کرکے اللہ اور رسول کی اطاعت پر بخوشی راغب کرکے اللہ سے اور اللہ کی مخلوق سے جڑے رہنے میں معاون ہونگے۔
ہر صورت انہیں انسانی ہمدردی، محبت اور ایثار کا نمونہ بن کر سبق دینے سے ان کی کبھی بھی بوریت نہ ہوگی بلکہ فراغت کو بہترین مصروفیت مل جائے گی جو دلوں کو مسحور کردیگی اور معاشرتی بھلائی کا ذریعہ بنے گی سب ملکر رب سے دعا کرینگے تو اللہ تعالیٰ ضرور راضی ہوجائیں گے اور اپنی رحمتیں اور برکتیں ہم پر نازل کرینگے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کل مسلم و مسلمات، مومن و مومنات کیلئے ایسے مشاغل اختیار کریں جو رب کو راضی کریں اور ہمیں قلبی اورروحانی سکون عطافرمائے آمین۔اس مضمون کو لکھنے کے دوران میںتین بندوں کا اپنے جاننے والوںمیں انتقال کا میسج سن چکی ہوں۔ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر طرح کے اختلافات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف انسانی فلاح و بہبودکیلئے کام کریں۔جسکو بھی ضرورت ہو اپنی احتیاطی تدابیر ایس او پیز کے ساتھ عمل کرتے ہوئے انکی مالی اور جذباتی اخلاقی مدد کریں اور ان کے دکھ درد کا مداوا کریں بالاوجہ گھروں میںجھتے بنا کر فضول باتوں،گپوں اورخرافاتی اعمال سے بچیںکھانے پینے اور سستی دکھانے میں اپنے آپ کوضائع نہ کریں ہمیںاپنے وقت کا جواب دینا ہے۔ گھربیٹھے ہی ایسے کام کریں کہ معاشرتی بوجھ بھی حکمت و دانائی اور سادگی کو اپناتے ہوئے برداشت کرلیں کہ یہی وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ اللہ ہماری مدد فرمائے آمین۔