کچھ دن قبل واٹس ایپ کسی وجہ سے ڈاؤن تھا چونکہ فیس بک اور انسٹاگرام بھی اسی کمپنی کی ہیں تو تینوں ایپس نہیں چل رہی تھیں۔ صارفین کو ابتداء میں کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ سب سے پہلے اپنے موبائل کو اونچا اونچا سر کے اوپر سے گھمایا گیا۔ پھر موبائل آن آف کیا بلکہ کئی دفعہ یہ عمل دہرایا گیا۔ وائی فائی کو بھی آن آف کیا گیا۔ پھر انٹرنیٹ سروس والوں کو کوسا اور کچھ نے تو کال کر کے ایسی واہیات سروس پر بے نقط سنائیں۔ ہم ایسے ہی بے صبرے لوگ ہیں۔
پھر جب دیکھا کہ گوگل اور یوٹیوب چل رہا ہے تو حیران ہو کر “واٹس ایپ ناٹ ورکنگ” لکھ کر سرچ کی گئی، اس کے بعد ٹیوٹر کا ٹرینڈ دیکھا تو پتا چلا کہ واٹس ایپ اور اس کے قبیلے کو ایک ہی بیماری لگ چکی ہے۔ ٹیوٹر پر میم کا طوفان برپا ہو چکا تھا۔ جن لوگوں نے ٹیوٹر کو عرصہ دراز سے متروک کر لیا تھا وہ ایسے دوبارہ آنے لگے کہ جیسے ہمیشہ سے یہیں چہل قدمی کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب کے کہنے پر گھبرانے سے پرہیز کیا کہ جلد ہی مسئلہ حل ہو جائے گا مگر اصل گھبراہٹ تو آدھی رات کے بعد شروع ہوئی۔ ہر کچھ دیر بعد آخری کئے گئے میسج کو چیک کیا گیا کہ پہنچا یا نہیں؟۔ فیس بک کی پوسٹ چیک کی جاتی رہیں مگر بے سود۔ اسی کشمکش اور بے چینی میں رات گزری اور پھر صبح مندی مندی آنکھوں سے چیک کیا کہ کیا صورت حال ہے۔ کسی قریبی دوست کو بے مقصد کا سلام جھاڑا جیسے ہی وہ دو ٹک کے بعد نیلا بھی ہو گیا تو یک بیک آنکھیں پوری کھل گئیں۔
ہر واقعہ کچھ نئے سبق سکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ان ایپس کے ڈاؤن ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو کچھ سبق یہ ہمیں سکھا گئے ہیں ۔سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر صبر اور برداشت پیدا کرنی ہے۔ ہمیں ان ایپس کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ خود نمائی اور خود ستائشی کے ہم اس قدر عادی ہیں کہ کہیں ہم تصویر لگا کر اور کہیں تحریر لگا کر لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کی لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔
ہم اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے کھاتے، پیتے، پہنتے، اوڑھتے، پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ریا کاری شرک ہے مگر شاید ابھی مانتے نہیں ہیں۔ ہماری اصلاحی پوسٹ ہمارے لئے نہیں لوگوں پر تنقید کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔اسی لئے اسٹیٹس لگانے کے ہر کچھ دیر بعد ویوز چیک کرتے ہیں۔ ہم اپنے لطیفوں پر خود نہیں ہنستے ہیں مگر دوسروں سے امید رکھتے کہ وہ ہنس ہنس کر دوہرے ہو جائیں۔
چند گھنٹے کے اس پاور ڈاؤن نے یہ بھی ہمیں سکھایا ہے کہ ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ اعتماد کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ سوچیں یہ تو ایک میسجنگ ایپ ہے کبھی آپ کی جمع پونجی لئے اے ٹی ایم ایسے ہی خاموش ہو جائے؟ ہمیں ٹیکنالوجی میں بھی متبادل کا انتظام کرنا چاہیئے۔ چونکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس نہیں چل رہی تھیں تو گھر میں ایک دوسرے سے رابطہ ہو گیا۔ ہمیں بغیر وجہ کے ایک دوسرے سے ملتے رہنا چاہییے۔ وہ دن بھی تو آنے والا ہے نا کہ جب میرا واٹس ایپ/ فیس بک ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا۔ سروس ڈاؤن ہونے سے قبل کچھ لوگوں نے غصے بھرے،یا محبت بھرے، یا پھر نفرت بھرے پیغام بھیجے ہوں گے اور جب میسج نہیں گیا ہو گا تو کچھ کو افسوس ہوا ہو گا کہ محبت بھراپیغام نہ پہنچ سکا اور کچھ نے شکر ادا کیا ہو گا کہ یہ نفرت اور غصہ اگلے کو نہیں پہنچا۔ زندگی میں ہی لوگوں کی قدر کریں اپنے غصے کو نفرت کو ابھی دبا دیں کل صرف پچھتاوا ہاتھ آنا ہے۔