اللہ کی نعمت

 

ہر چیز من جانب اللہ ہے ۔ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے نہ بیمار ہو سکتا ہے نہ صحت مند ، کہتے ہیں نا کہ بیماری جسم و جان کا صدقہ ہے۔تو یہ کیسا صدقہ ہے جو اللہ کی مرضی سے ادا ہوجاتا ہے جبکہ ہمیں کبھی اسکا خیال تک نہیں آتا ، صحت مندی میں ہم اپنے آپ کو بڑے تُرم خان سمجھتے ہیں ۔ کمزوروں ، بیماروں کو دیکھ کر شکر بجا لاتے ہیں ۔ بسا اوقات فخر بھی کر بیٹھتے ہیں جسکا ہمیںاحساس تک نہیںہوتا ۔ صحت کی قدر تو صحت مند نہیں بیمار بندہ ہی اچھی طرح جان سکتا ہے ۔ واقعی بیماری بھی اللہ کی ایک نعمت ہے ۔ کس طرح انسان بیمار ہو کر ، صحت کھو کر اللہ سے جڑجاتا ہے اور اتنا جڑ جاتا ہے کہ لوگ اسکو کہتے ہیں کہ تمہارا رتبہ بڑا ہو گیا تو تم فرشتہ صفت ہوگئے ہر وقت رب سے تعلق باندھے ہوئے ہو ہمارے لئے بھی دعا فرمائیں۔

عیادت کو آنے والے نہ صرف مریض کی عیادت کا ثواب پاتے ہیں اور جب مریض کیلئے دعا کرتے ہیں ان کی دلجوئی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اس بیماری میں مبتلا نہیں کرتے۔ سبحان اللہ! لہٰذا بیماری کو اللہ کی طرف سے نعمت سمجھیں اور اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔کتنے ہی اقوال اور احادیث ہیں جو ہماری غلط فہمیاں دور کرکے ہمیں ایک نئی طاقت اور احساسِ شکر گزاری عطا کرتی ہیں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بقول آپؐ نے فرمایا “مسلمان جب بھی کسی پریشانی، غم، ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ اب ہمیں احتساب یہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ ہمارے اعمال ہمارے روئیے؟ ہماری پریشانیاں ، بیماریاں پھر تو ہمارے لئے اللہ کی نعمت ہی ہوئی پھر تو مہربان رب ہم پر اپنی نوعیت کا کرم کررہا ہے !بہت سے مریض بغیر دوا کے ہی صحت یاب ہوجاتے ہیں ، محض دعا قبول ہوجانے سے یا نفع مند “دم”کی بدولت یا دل مضبوط رکھنے اور اللہ پر کامل توکل کرنے سے “اسی طرح ایک جگہ امام ابن القیم ؒ فرماتے ہیں۔ اللہ کا ذکر، اللہ کی طرف پلٹ جانا ہے، لوٹ جانا ہے۔

آزمائش آتے ہی نماز کی طرف لپکنا، کتنے ہی مریضوں کو اس سے شفا مل جاتی ہے اور کتنے ہی مریضوں کو اس سے عافیت نصیب ہوجاتی ہے۔

اب وہ اپنے ساتھ دوسرے مریضوں کیلئے خلوصِ دل سے دعائیں بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو کسی کی بھی دعا رد نہیں کرتاکیونکہ یہی عین عبادت ہے۔ ہم روزانہ کی زندگی میں کتنے ہی لوگوں کو بیمار، مریض، حادثات کا شکار، کسی آفت میں مبتلا دیکھتے ہیں تو کتنا دکھ ہوتا ہے۔ درد مند دل رکھنے والوں کی ہمدردیاں اور خدمتیں اس کیلئے حاضر ہوتی ہیں۔ بیمار یا پریشان حال بندہ انہیں بھی دیکھ کر اپنے گذشتہ لمحات کو یاد کرتا ہے۔ اپنی خطائوں اور لاپروائیوں کی دل سے رب سے معافی مانگتا ہے اور اپنے تمام ساتھیوں کیلئے بھی دعا کرتا ہے جو کبھی رد نہیںہوتیں تو ساتھیوں ہمیں سوچنا چاہئے ملک میں مصیبت کی اس گھڑی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، حکومتی اداروں سے، دیگر عوام سے ہر طرح کا تعاون کریں۔

سب سے پہلے تو صفائی اپنا کر اپنا نصف ایمان حاصل کریں ۔ نیتوں سے لیکر جسم و جان ، مکان، دکان، ارد گرد ہر جگہ صفائی کا خیال رکھیں کہ کوئی ہم سے پریشان نہ ہو، اداس نہ ہو اور ہم بین الاقوامی طور پر آلودگی کو دور کرنے میں اپنا سو فیصد کردار نبھائیں ۔ گھر بچائیں، محلہ، شہر اور ملک بچائیں تو عالمی ماحول تک اس کا اثر جائیگا۔ پرہیز اور علاج کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ اس بیماری کو اللہ کی رحمت سمجھ کر ایک نوٹس سمجھ کر گناہوں سے تائب ہوں۔ عزیز رشتہ داروں سے تعلقاے سچی معافی لیکر استوار کریں کہ “سب راضی تو ہی رب راضی”وہ تو ہے ہی رحمٰن اپنی رحمت ضرور عطا فرمائیں گے۔

اپنے حقوق کے معاملے میں مگر بندوں کے حقوق کے معاملات میں رب کی ذات تو یاد رکھیں منصف بھی ہے اور جلد باز بھی، اس کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی اور اس کا انصاف ہم سہہ ہی نہیں سکتے ، ہمیں تو صرف اس کا کرم چاہئے۔ اس لئے بندوںکا حق مارنا انہیں تنگ کرکے ڈیپریشن کا شکار کرنا ایک ظلم ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر دوسروں کا نقصان دراصل خود کا نقصان ہے لہٰذا خود کو نقصان سے بچائیں ۔ دوسروں کی بیماریاں، پریشانیاں، اموات، تکالیف، زمینی اور آسمانی آفات، ناگہانی واقعات اور حادثات طرح طرح کی اموات کیا ہمارے لئے نوٹس نہیں؟ ہم کیونکہ اتنے بے خوف اور بے باک ہیں کہ “یا شیخ اپنی دیکھ”سے آگے نہیں بڑھ پا رہے تو بتائیں کیسے بخشے جا ئیں گے؟ اور کیا نتیجہ پائیں گے؟ حرام کی کمائیں گے تو کبھی سکھ نہ پائیں گے۔ یہ بیماری تو خود ساختہ ہوئی اس پر اجر نہیں گناہ ملے گا۔

زندگی تو امانت ہے اسے صاف شفاف پانی کی طرح پاکیزہ ہونا چاہئے صرف اور صرف خیر اپنا کر اسکے باوجود جو آزمائشیں ہیں وہ اپنے ہی برے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے تو اللہ کی مہربانی دیکھیں اس پر بھی بیماری جیسی نعمت دے کر اپنی طرف لوٹا رہا ہے سو لوٹنے کی پوری تیاری کریں گویا “اللہ کا ذکر کریں” اور اطمینان قلب حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔شعوری طور پر پلٹنے کی، کہ رب کو پلٹنے والے، توبہ کرنے والے، نادم اور عاجز لوگ زیادہ پسند ہیں ۔ شکر اللہ کا ہم ابھی زندہ ہیں صحت مند ہیں اور جانتے ہیں کہ صحت مندی بیماری سے افضل ہے کہ ہم زیادہ اچھی طرح مقصدِ حیات ادا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو توانا لوگ اپنی عبادات میں شریعت کی پابندی میں زیادہ عزیز ہیں۔