کھول آنکھ زمیںدیکھ فلک دیکھ فضا ء دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
علامہ اقبال صاحب کا یہ شعرنہ جانے لاشعوری طور پر مجھے کب سے یاد ہے امی ہی اکثر کہتی رہتی تھیںتو خود یاد ہوگیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تفسیر سمجھاتا چلاگیا۔ابھی پچھلے ہفتے ایک گھنٹے کی خاموش بارش ہوئی نہ بادل تھے نہ ہوا چل رہی تھی اچانک رات میںتیز بارش ہوئی غالباً پندرہ جولائی کی رات اور پھر عید سے تین دن پہلے دہ دن تک بہتر ین ہوا چل رہی تھیںاور ہلکی سی پھوار کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہا اور رات بھر ہلکی پھوار ہوتی رہی بظاہر لوگ بارش کے آنے کا انتظار کرتے رہے اپنے جانوروں کیلئے بارش سے بچنے کے انتظامات بھی کردیئے گئے۔میں اپنے جانور ایک بکرا اور گائے میں ڈالے ہوئے حصے کی خاطر انھیں دیکھنے گئی جو گارڈن ایسٹ میں ہمارے ایک بھائی کے گھر تھے۔ہر نظارہ مجھے بہت اجلا خوبصورت دھلا ہوا لگا۔ درخت جو بے رنگ مٹی سے اٹے ہوئے تھے ایسے نکھر گئے کہ کیا بتائوں؟کیا غضب کی ہریالی کے آنکھوں سے دیکھ کر دل تک تراوٹ محسوس کرنے لگے واقعی آہستہ آہستہ ہر پتا دھل کر نیا ہو چکا تھا۔سبحان اللہ اتفاق سے انکا گھرتیسری منزل پر تھا اور وہاں انکی گیلر ی سے آغا خان جم خانہ سے منسلکہ اسکولزاور تواتر سے تین گارڈن اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ کیا بتائوں؟
ہوا اتنی حسین کہ پوچھو نہیں!راستے بھر میں نے دیکھا کہ ایک درخت پیڑ پودے ہی کیا تمام ماحول پرانی بوسیدہ عمارتیںجن کے کچھ رنگ ہی نہ تھے صرف زنگ تھے دھل کر صاف ستھرے ہوگئے کیا بل بورڈزکیا کراسنگ بریجز کیا عمارتوںکی دیواریں پولز یہاں تک کے بجلی کے کھمبے اور وائریںتک دھل کر صاف ستھری ہوگئیں اتنی چمک دار دھوپ نکلی اس کے بعداگلے دن کہ جیسے ان اجلے مقامات کی تصاویر لے رہی ہوں۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں کاٹھ کباڑہ نکھر گیا مگر قدرت کی اس عظیم صفائی کا انتظام دیکھ کر سبحان اللہ ہم دونوں میں اور میری بھابھی ششدر تھے کہ واقعی کسی مائی کے لال میں اتنی جرأت نہیںکہ صرف ایک درخت کے تمام پھول پتے شاخیں تنا یوں صاف ستھرا کردے جبکہ اتنا بڑا غلیظ کراچی چند گھنٹوں میں جگ مگ جگ مگ ہو گیا یہ تو قدرت جو انمول ہے سبحان اللہ اس کی طاقت کا تو کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا۔
لیکن انسانوں پر جانوروں پر پودوں پر اس کے خوشنما اثرات ایک الگ ہی کہانی ہے سب کتنے چہک جاتے ہیں۔ اس قدرت کی انمول صفائی پر تو ہمیں جتنا بھی شکر کریں کم ہے اس قدر دان رب کے آگے سجدہ ریز ہوجائیںکہ گرمی کے اثر کو کم کر کے پر سکون نیند سے سکھ چین سے نوازا آنکھوں کو ٹھنڈک دی دل کو الگ ہی طرح کا سکون دیا عید کے دونوں ہی دن خوبصورت موسم نے واقعی اس کی مہربانی پر صد شکر ادا کرنے پر خود بخود راضی ہوا لیکن دوسری طرف انسان اتنا ناشکرا اتنا بگڑا کے اسے اپنا ایمان مکمل کرنا ہی نہیں آرہا۔ـصفائی نصف ایمان ہے۔ بچپن سے یہ حقیقت سنتے آئے ہیں مگر عملی طور پر کہیں نظر نہیں آرہی ۔ جس زمین کو رب نے خوبصورتی سے سجایا ہے اسے ہم ہی گندہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ دکھاوے کیلئے ٹشو پیپر رومال اور نہ جانے کیا کیا لوازمات ہینڈواش، سوپ ، لوشن سب کچھ استعمال کرتے ہیں۔
صفائی جس کا تعلق نیت سے ہو ، دل سے ہو ، صرف اپنی ذات کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنے پورے ماحول کیلئے ہو ۔ وہ بات کہیں نظر نہیں آتی ہر جگہ کچرا ، ہر طرح کا کچرا گیلا ، خشک طرح طرح کے آپ کی سوچ بھی کام نہ کرے ۔ کبھی تو شرمناک حد تک غلیظ کچرا راہوں میں بکھرا ہوتا ہے ۔ اگر اوپر بلڈینگیں ہیں اور مکین پھل فروٹ سبزی کے تھیلے کچرے کے تھیلے تو تھیلے ، دیگر بچوں بڑوں کے آلودہ پیمپرز تک ایسے دھڑا دھڑ پھینکتے ہیں، جو نیچے آکر پھٹ جاتے ہیں ۔ پرندے پلاسٹک کی تھیلیوں کو نوچ کر کھول کر چھلکے وغیرہ کھاتے ہیں۔
کتے بلیاں الگ چمٹی ہیں تو مکھیوں کی الگ بھرمار چاہے نیچے بڑا سا باغیچہ ہی کیوں نہ ہو مگر کسی کوکسی کی پرواہ نہیں ، نیچے باغیچے کے اندر بھی اور باہر چاروں طرف یہ لوازمات جنکو دیکھ کر گھن آئے اور بو سے دماغ خراب ہو ہم جسے لوگوں کے ساتھ وہاں جانا اور بچوں کو لیکر جانا واک کرنا ایک تکلیف دہ عمل ہے دیکھ کر مزیدطبیعت خراب ہوتی ہے اور لاحول ولا پڑھتے واپس آجاتے ہیں ۔ یہ نظارے کیسے ہیں ؟ کیا بندہ اتنا بگڑ گیا ہے کہ خود اپنا ایمان بیچے ، کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں نہ والدین بچوں کو سکھاتے ہیں کہ ہم صفائی رکھیں گے تو خود فائدہ اٹھائیں گے ۔ یہاں تک کہ اچھے خاصے لگے ہوئے گِرلز اور سیمنٹ کے صوفے نما سیٹیں تک توڑز تاڑ کر برابر کر دیتے ہیں جنکی وجہ سے کتے بلیاں تک وہاں جگہ جگہ بیٹھے ہوتے ہیں ، مزید گندگی ناقص بہتے گٹر اور گھر کے نلوں کے ٹوٹے پھوٹے ہونے کی وجہ سے کیچڑ ، پھسلن ، مکھی مچھر جگہ جگہ یہی صورت حال کیا کرے انسان؟
کیسے نہ ہو پریشان ؟ کیا یہی شکر گزاری ہے ؟ کیا یہ ہی انسانیت ہے ؟ کیا یہی اخلاق ہے ؟ اسلامی معاشرے کے اقدار ہیں ؟ کیا ہمارا یہ کردار ہے ؟ کب سدھریں گے؟ کیسے ٹھیک ہونگے؟ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔ پولیس تو بِکی ہوئی ہے ورنہ اگر انتظامات کرنے والے دیانت دار ہوں ، ذمہ دار ہوں ، ہر بندہ صحیح معنوں میں حساس ہو اور با کردارہو تو یہ ماحول ہو ہی نہیں خود بخود صفائی ہوتی رہے بلکہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے معاشرے کی بحالی اور صفائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ماحول کو خوشگوار صاف ستھرا بنا کر ایک عالمگیر محبت دلوں میں پیدا کردیں اور بندہ بندے سے بے لوث محبت کرے ، خدمت کرے۔
ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچے بلکہ مددگار اور معاون بن جائے تو پھر کتنا اچھا ہو؟ جب ہماری قدرتی منظر پر شکر گزاری کئی گنا ہوجائے اور خوشیاں مستقل ضرب کھا کر کئی گنا ہوجائیں ، تعلقات لوگوں کے اتنے اچھے خوشگوار اور وسیع تر ہوجائیں جنکو دیکھ کر قدرت بھی ہم پر مزید مہربان ہوجائے کیا ہم اور آپ ایسا نہیں چاہتے ؟ کیا ہم اپنے حصے کا دیا جلانا بھول گئے ہیں ؟ کیا ہم اپنی ذمہ داری چھوڑ بیٹھے ہیں ؟ یا ہمارا اللہ نہ کرے ایمان دن بدِن کمزور ہوتا جا رہا ہے ؟ کہ ہم سستی اور کاہلی میں کچھ کرنا نہیں چاہ رہے تو پھر سمجھ لیں کہ ہم خود اپنے آپ کو نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر تباہی سے بچا سکتے ہیں؟ “کرونا جیسی وبا” اور عذاب کے باوجود بھی اگر ہم اپنی اسلامی تہذیب اور معاشرت کو نہ یاد رکھیں نہ عملی طور پر نبھائیں۔
فطرت میں بگاڑ پیدا کریں اور فطرت کے مطابق زندگی نہ گزاریں تو سمجھیں کہ ہم نے اپنی دنیا بھی تباہ کی اور آخرت بھی۔ ہمارا دین اسلام کتنا معتبر ہے ، کتنا مقدس ہے ! سبحان اللہ نام ہمارا مسلم تھا مسلم ہے لیکن ہم خود اپنے لئے اور اپنے بھائیوں کیلئے مستقل خطرہ بنے ہیں ۔ بجائے سلامتی دینے کے ناجائز کام کرکے ، بے ایمانیان کر کر کے لوگوں کیلئے تکالیف کا سامان پیدا کرکے بڑے مطمئن ہیں کہ کتنے پھنے خان ہیں ہمیں کوئی روکنے والا نہیں ! پولیس ہماری جیب میں ہے ! یہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ۔ چند نفسانی خواہشات کی تکمیل جو کہ خرافاتی ہیں کی خاطر دنیا بٹورنا اپنی آکرت کو تباہ کرنا اور دنیا میں بھی ناپسندیدہ رہنا شرمناک عمل ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ہدایت دے اور ہم سے وہ کام لے لے جنکو کرکے ہمیں ہر لمحہ خوشی ہو ہمیں اپنے سے زیادہ اپنے رب کی خوشنودی اور اسکی مخلوق کی بھلائی کی ہر ہر لمحہ فکر ہو !!! آمین