پاکستانی کامیڈین و اداکار عمر شریف عارضہ قلب اور دیگر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے ان کے علاج کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے چار کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کی گئی اوروہ اپنی اہلیہ زریں غزل کے ہمراہ ائیر ایمبولینس کے ذریعے امریکا پہنچ چکے ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں معروف پاکستانی اداکارہ ریما خان کے شوہر اور ماہر امراض قلب ڈاکٹر طارق شہاب نے ان کے لیے جارج واشنگٹن یونیورسٹی اسپتال میں انتظامات کئے ۔ یہ حکومت کا احسن اقدام ہے کہ انہوں نے ملک کے لیجنڈ فنکار کی زندگی بچانے کیلئے انہیں سرکاری خرچے پر امریکا بھیجا ، کیوں نہیں اداکار و فنکار ہمارا سرمایہ ہے ۔یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف عمر شریف کے لئے یہ سرکاری خدمات ہیں ، ان سے قبل بھی متعدد عظیم فنکار کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ان کی کہیں بھی داد رسی نہ ہو سکی اور بہتر علاج و معالجے کی سہولیات کا انتظار کرتے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
المیہ تو یہ ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل عرصے سے بیمار ہے ، ان پر کسی سرکاری ادارے نے نگاہ التفات نے ڈالی اور نہ ہی ہماری حکومت میں سے کسی وزیر مشیر کو یہ توفیق ہوئی کہ مایہ ناز اٹیمی سائنسدان جو ہماری بیش قیمت متاع قوم ہیں ان کی بہتر نگہداشت کے لئے اعلیٰ سہولیات فراہم کی گئیں ، بلکہ گزشتہ دنوں ان کی انتقال کی جھوٹی خبر وائرل ہوئی جو یقیناً محسن پاکستان کی توہین کے مترادف ہے ۔ جو قومیں اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتیں ۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ کہ وزیر اعظم یا کسی بھی کابینہ رکن نے ان کی خیریت تک دریافت نہیں کی۔محسن پاکستان کی جانب سے حکومتی بے توجہی اور پہلوتہی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب دو وفاقی وزرا پاکستان کے لیجنڈ اداکار کی عیادت کے لیے کراچی میں نجی اسپتال پہنچے۔ جہاں پر ان کی صحت کے حوالے سے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا بھی کہا گیا۔ جس پر دلبرداشتہ ہو کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہایت افسوس کے ساتھ کہا کہ عیادت تو دور کی بات کسی بھی سرکاری عہدیدار نے فون تک نہیں کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کرونا میں مبتلا ہونے کے بعد محسن پاکستان کواسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستانی قوم نے محسنِ پاکستان کا خطاب دے رکھا ہے۔ محسنِ پاکستان کے خلاف ایسی بات سننے کے بعد کسی اور موضوع پر لکھنا ممکن نہ تھا لہٰذا ذہن ڈاکٹر قدیر پر فوکس ہوگیا۔ڈاکٹر قدیر کا نام سب سے پہلے 1974-75 میں سننے میں آیا جب انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انکے عزم کو دیکھتے ہوئے انکو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی۔
آگے کہانی کافی لمبی ہے جس میں اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے کچھ لوگ قدیر خان کے کام کو اس پراجیکٹ میں معمولی حصہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کہوٹہ میں ایٹم بم بنانے والے پراجیکٹ کے سربراہ قدیر خان تھے اور پروجیکٹ کا نام بھی انکے نام سے منسوب ہے۔ KRL (خان ریسرچ لیبارٹریز) ہے۔ اتنے بڑے پروجیکٹ پر یقینا سینکڑوں سائنسدانوں نے کام کیا ہوگا اور اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطابق اس میں حصہ ڈالا ہوگا۔ لیکن کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی اسکے سربراہ کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔قدیر خان نے ایٹم بم بنانے میں جو سائنسدان کے طور پر حصہ لیا وہ اپنی جگہ اہم ایک اور بات جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو پاکستان کے عوام میں اس طرح مقبول کردیا اور عوام کوسمجھا دیاکہ اس ادارے کا کام کرنا پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں حکمران بدلتے رہے لیکن کسی کو کبھی یہ جرات نہ ہوئی کہ اس پروگرام کو ختم کرسکے۔
اس میں اگر روڑے اٹکائے یا نقصان پہنچایا تو وہ جناب کمانڈو جنرل مشرف ہی تھے۔ بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا اور ہم کو آزادی دلوائی اور ڈاکٹر قدیر خان نے ہمیں آزاد ی کی ضمانت فراہم کی۔امریکہ نے جب ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے پاکستان پر مزید دبائو ڈالا تو ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کی خاطر زبردست قربانی دی۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے دوسرے ملکوں کو یہ ٹیکنالوجی دینے کی غلطی کی ہے اور یہ کہ یہ انکا اپنا ذاتی عمل ہے اس میں حکومت پاکستان بالکل شامل نہیں۔ انہوں نے یہ بات صرف پاکستان کو بے جا پابندیوں سے بچانے کے لئے اور اپنی عزت اوروقار کو دائو پر لگا کر پاکستان کو پابندیوں سے بچالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی فائلیں بنالینا امریکہ یا CIA کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ عراق پر حملہ کرنے کے لئے امریکی صدر کو ایسی فائلیں دکھائی گئیں جن میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ عراق کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے اور وہ اس کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی حکومتی سطح پر مکمل پذیرائی کی جائے۔ انکے شایانِ شان طریقہ سے علاج کروایا جائے۔
آج ہماری جمہوری حکومت امریکی صدر کے سامنے ڈٹ کر بات صرف اسلئے کررہی ہے کیونکہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والا یقینا ہمارا سب سے بڑے ہیرو ہے اور وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے۔دوسری جانب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آ خر فنکار اتنی کسمپرسی میں کیوں مبتلاہو تے ہیں کہ بالآخر کسمپرسی میں زندگی کے آخری ایام گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس کی کئی مثالیں ہیں روحی بانو، انور سجاد، حبیب جالب، مہدی حسن ،نصرت آرا عرف بل بتوڑی’ بھی بے حد غربت میں زندگی کے آ خری دن کاٹ کر گزر گئیں۔ اے حمید صاحب کے حالات بھی بہت اچھے نہ تھے۔ ہزاروں، ادیب، شاعر، گلو کار، موسیقار، فنکار، اسی طرح علاج معالجے کے لیے مجبور، غربت و افلاس کے ہاتھوں پریشان، ایڑیاں رگڑ کر رخصت ہوئے۔بس اتنا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ پھول لے کر متاثرہ فرد کے پاس جاتے ہیں اور پھر اتنی تگ و دو سے ہی ہانپ کے بیٹھ جاتے ہیں یہ جانے بغیر کہ پھولوں کے اس گلدستے کی بجائے، دو کلو دال یا پانچ کلو آ ٹا یا ایک انجکشن یا ایک وقت کی دوا زیادہ اہم تھی۔
ڈرامہ، انڈسٹری بنا تو اس سے وابستہ افراد کے حالا ت کچھ بہتر ہوئے لیکن اشاعت کا شعبہ صنعت ہونے کے باوجود ادیبوں کے حالات نہ بدل سکا۔ حکومت کے بنائے ہوئے اداروں سے گو بہت سے لوگوں کو فوائد بھی ملے لیکن طویل المعیاد کچھ بھی ثابت نہ ہوا۔