تقدیر

عقیدہ تقدیر سے انکار کرنے والا کافر ہے ۔ مجوسی ہی تقدیر سے انکار کرتے ہیں ۔ اب ذہن میں سوال آتا ہے کہ جب لوح قلم میں ہماری تقدیر لکھی ہے تو جزا اور سزا کیسی ؟ جب اللہ نے ہماری تقدیر لکھ دی ہے تو ہم محنت مشقت اور جدو جہد سے اپنی تقدیر کیسے بدل سکتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب کے لیے میں نے آج اپنا قلم اٹھایا ہے اور ہر بات کتاب و سنت کی روشنی میں ہوگی ان شاء اللہ !

تقدیر ازلی:

قرآن میں ہے کہ ہم نے تمام عالم کی ایک ایک چیز کو اپنی ازلی کے مطابق بنا یا ہے یعنی ازل میں پیدا ہونے والی چیز اور اس کی مقدار زمان و مکان اور اس کے بڑھنے گھٹنے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لکھ دیا گیا تھا۔ جو کچھ عالم میں پیدا ہوتا ہے وہ اسی تقدیر ازل کے مطابق ہوتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.

ترجمہ :۔۔اور ہم نے اسے دونوں راستے دیے ہیں ۔(سورہ البلد : 10)

تفسیر :انسان کو اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی دونوں راستے دکھا دیے ہیں اور اختیار دیا ہے ۔یہ دونوں راستوں کا اختیار کیا ہے؟ کیا اس سے تقدیر میں تبدیلی آتی ہے ۔اس سے ہم دنیا میں زندگی گزارنے اور محنت کرنے کی وجہ اختیار کر سکتے ہیں ۔ ہمیں قیامت میں جو اعمال نامہ ملے گا اس کے متعلق قرآن کہتا ہے:

پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔ ( سورہ بنی اسرائیل: 14 )

قیامت میں اس اعمال نامے میں دو باتیں ہوں گی جو ہم دنیا میں کرتے رہے ، تقدیر امم:

( نہ ٹلنے والی )

جو ام الکتاب میں لکھی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کے پاس اور صرف علم الہیٰ کے لیے مخصوص ہے ۔اس میں وہ احکام لکھے جاتے ہیں جو شرائط اعمال یا دعا کے بعد آخری نتیجہ کے طور پر ہوتے ہیں۔ پھر وہ کمی بیشی سے بالکل بری ہے ( ابن کثیر )

یہ اعمال نامہ بچے کی پیدائش کے وقت ان کے ساتھ ہی فرشتوں کو دی جاتی ہے جس میں پچھلے احکام کا منسوخ ہونا یا بر قرار رہنا اس کی نسل کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس کی مثال سورہ کہف میں جب حضرت خضر ؑ یتیم بچوں کے گھر کی دیوار جو گرنے والی تھی اور جس میں ان بچوں کا خزانہ تھا مرمت کردیتے ہیں اور جب حضرت موسیٰ ؑ اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو جواب ملتا ہے جو قرآن میں مذکور ہے:

اوران کا باپ ایک نیک آدی تھا۔ ( سورۃ الکہف)

یعنی والدین کے اعمال بچوں کے نصیب بناتے ہیں ہر شخص کی عمر اور زندگی بھر میں ملنے والا رزق اور پیش آنے والی راحت یا مصیبت اور ان سب چیزوں کی مقدار اللہ تعالیٰ نے بچے کی پیدائش سے قبل ہی فرشتوں کو لکھوا دیتے ہیں اور ہر سال شب قدر میں ( قدر کا مطلب تقدیر) اس سال کے اند رپیش آنے والے معاملات ( یعنی پچھلے احکام کا منسوخ ہونا اور باقی رہنا ) کا رجسٹر فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔

پچھلے احکامات کی تبدیلی کا عمل ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے جس کہا گیا ہے کہ بعض اعمال سے انسان کا رزق بڑھتا اور بعض سے گھٹتا ہے ۔صحیح بخاری میں ہے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا سبب بنتی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ بعض اوقات آدمی ایسا گناہ کرجاتا ہے کہ جس کے سبب رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے ( مسند احمد) ۔ تقدیر الہیٰ کو کوئی چیز دعا کے سوا نہیں ٹال سکتی۔

قرآن پاک میں ہے : اللہ جوچاہے باقی رکھتا ہے اس کے پاس ہے اصل کتاب

( سورۃ الرعد : 39 )

تقدیر معلق:

اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے سے حاجات پوری ہوتی ہیں ۔ حضور ﷺ کو جب کوئی ضرورت پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے ۔ نماز دعا کا بہترین عمل ہے ۔ جہاں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے سے حاجات پوری ہونے کا یقین ہے اس کے ساتھ ساتھ پھر ان میں صبر کی تلقین آئی ہے ۔جو اللہ نے تقدیر میں لکھا ہے اس پر کامل یقین ہوناچاہیے ۔چونکہ اللہ کو ہی معلوم ہے کہ ہمارے لیے اعمال کیا ہیں اور دعا کی قبولیت کب ہونی ہے ۔ سدرۃ المنتہیٰ وہ بیری کا درخت ہے جہاں تک فرشتے لوگوں کے اعمال لے جاتے اور تقدیر لے کر آتے ہیں۔

ایک حدیث کے مطابق ارشاد ہے کہ بعض آدمی جنت کے کام اور اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے ۔یہاں تک کہ اس شخص اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے مگر پھر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل دوزخ ہوجاتا ہے۔اسی طرح بعض آدمی دوزخ میں جانے والے اعمال میں مشغول رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ۔پھر تقدیر غالب آجاتی ہے اور آخری عمر میں جنت کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تدبیر کا حکم دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کو کوئی نہیں ٹال سکتا ۔ تقدیر پر ایمان لانا اور تدبیر اختیار کرنا دونوں لازم اور ملزوم ہیں ۔ تدبیر میں علاج، دعا ، صلہ رحمی اور صدقات شامل ہیں جن سے تقدیر بدل سکتی ہے۔

قران پاک میں ارشاد ہے : یہ سچ ہے کہ راستہ بتلانا ہمارے ذمے ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھلاتے ہیں اور کن لوگوں کو بدی کا۔ اللہ تعالیٰ ان ہی لوگوں کو ہدایت کا راستہ دیتے ہیں جو دل میں اللہ کے ہونے کا یقین اور اس سے ڈرتے رہنے کے عمل پر گامزن ہوں ۔ اور اپنی عملی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلتے اور دنیاوی چیزوں کے آگے اللہ اور رسول کے احکامات پر چلتے اور ان کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کی نیت میں مادہ پرستی نہ ہو ۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور ہر بندے پر آزمائش بھی لاتا ہے ۔جب بندہ اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں صبر کرے ۔ اللہ اور رسول کے احکامات کو پکڑے رہے ۔وہ لوگ ہدایت کا راستہ پالیتے ہیں۔

اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے ۔تقدیر کا تعلق ہماری نیت سے بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے باخبر رہتا ہے جس سے ہماری آگے کی تقدیر اور ہماری نسلوں کی تقدیر کے فیصلے ہورہے ہوتے ہیں۔

                                             عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

                                             یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری