چھالے تھے جنھیں دیکھ کر کہنے لگا بچہ
بابا مرے ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں
” children is meant to learn , not to earn! “
بچے جو پھولوں کے گل دستے کی مانند ہوتے ہیں جن کی مہک سے گھر کے آنگن کے ساتھ معاشرہ بھی مہکتا ہے جن کے معصوم چہرے سے انسان کا رنجیدہ دل بہل جاتا ہے اور چہرے پر تبسم کے ذرات بکھر جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ آج ہمارے معاشرے میں بچے تعلیم اور کھیل کھود کے بجائے محنت مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جن کے بدن سے خوشبو کی مہک آتی تھی آج ان کے بدن پسینے سےشرابور ہیں۔
ہماری ریاست کو عہد حاضر میں بےشمار مسائل کا سامنا ہے ان مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ ” چائلڈ لیبر ” ہے۔ چائلڈ لیبر وہ لعنت ہے جس سے بچے کو جسمانی ، ذہنی اور اخلاقی طور نقصان پہنچتا ہے۔ جس سے بچہ اپنی خوشیوں ، امنگوں ، باوقار اور باعزت طرز زندگی سے محروم ہو جاتا ہے۔ بچہ تعلیم سے دور اور اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 160 ملین سے زائد بچے چائلڈ لیبر کی لعنت کا شکار ہیں اور کورونا وائرس کے سبب تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا۔ 12 جون 2002ء سے ہر سال بچوں سے جبری مشقت کروانے کے خلاف عالمی سطح پر ” چائلڈ لیبر ڈے ” منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کو محنت و مشقت سے بچا کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اور ان افراد کی حوصلہ شکنی کرنی ہے جو بچوں کو محنت مزدوری کرواتے ہیں ۔
ہر سال اس عالمی دن پر سیمینارز، آگاہی واک اور دیگر تقریبات کےساتھ بڑے بڑے بھاشن بھی سننے کو ملتے ہیں مگر عملی اقدام کوئی نہیں کرتا ۔ ہر سال اس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں بچے حق تعلیم سے محروم کیوں ہیں ؟ کیوں بچے کم عمری میں محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں ؟ اس ساری صورتحال کا جواب دار کون ہے ؟ کب اور کیسے ہمیں اس لعنت سے چھٹکارا ملے گا؟
اکثر بچوں کے والدین مہنگائی اور غربت کا رونا روتے ہوئے اپنے بچوں کو اس آگ میں دھکیل دیتے جس میں بچہ ساری عمر جلتا رہتا ہے۔ ایک باشعور اور ذمہ دار والد کبھی بچے کو تعلیم سے دور کر کے محنت مزدوری پر نہیں لگاتا اس کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی ہے نہ کہ بچے کے ہاتھ میں اوزار یا کاسہ تھما دے ۔ دوسری جانب صنعتوں ، کارخانوں ، ہوٹلوں ، کھیتوں ، ورک شاپس اور گھروں میں کام کروانے والے افراد اس کے ذمہ دارہیں جو بچوں سے کم عمری میں پورا کام کرواتے اور بدلتے میں اتنی رقم دیتے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ دے دیا جائے اور اگر بچے سے کچھ غلطی ہو جائے تو اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بچہ تنگ آ کر یا جرائم کی دنیا سے وابستہ ہو جاتا یا پھر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں باشعور اور اعلی منصب پر فائز افراد نے اپنے گھروں میں کام کے لیے چھوٹے بچے رکھے ہوتے ہیں جن سے تشدد کے ذریعے ہر چھوٹا اور بڑا کام کروایا جاتا ہے کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جس میں شعور نہ ہو ۔
ہماری حکومت بھی اس لعنت میں برابر کی شریک ہے جس کی ناقص پالیسیوں کے سبب بچے تعلیم کی بجائے محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں ہمارے ہاں قانون تو بہت سخت بنائے جاتے بھاشن دئیے جاتے مگر ان پرعمل درآمد بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔
ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں ۔ چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کے یے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے جو بچے محنت و مشقت کر رہے ان کو تعلیم بھی دینی ہو گی اور تربیت بھی کرنی ہو گی تاکہ وہ ایک مفید شہری بن سکیں ورنہ ہم معاشی اور معاشرتی طور پر یوں ہی پستے رہیں گے اور یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ بچے سیکھنے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ کمانے کے لیے ۔