آج کا دور ترقی یافتہ کہلاتاہے، ہر گوشۂ زندگی میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، آج دنیا کی دوری ختم ہوچکی ہے، ذرائع ابلاغ اور وسائلِ نقل و حمل نے ترقی کرکے سالوں اور مہینوں کے کام دِنوں، گھنٹوں اور منٹوں میں ممکن کردیے ہیں، ماضی کے مقابلے میں آج مال و دولت کی بھی کمی نہیں رہی، حقیقت میں آج ’زمین سونا اگل ‘رہی ہے، سمندروں نے اپنی تہوں سے ہی ہے.
موتی اور جواہر پارے ساحلوں پر لاکر رکھ دیے ہیں۔ ہر قسم کے اسباب ووسائل کی فراہمی کے باوجود ایک دائمی بے اطمینانی کا راج ہے۔بے سکونی کا تسلط ہے۔ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے۔فسادات اور قتل و غارت گری عام جبکہ امن وآشتی اور سکون و عافیت مفقود ہے۔خود غرضی عام ہے،اخلاق و پاک دامنی کا فقدان ہے۔ شرافت و امانت جنسِ کم یاب بنتی جارہی ہے۔زِنا اور شراب نوشی ،سود اور قمار بازی،جوا اور سٹہ بازی کی نئی نئی شکلیں اختیار کی جارہی ہیں۔دین ومذہب کے نام پر فتنوں کا نہ تھمنے والا سیلاب ا ُمڈتا چلا آرہا ہے، ہر طبقۂ فکر کے افراد کے درمیان اختلاف ہی اختلاف ہے.
بین الاقوامی اختلاف، فرقہ وارانہ اختلاف، سیاسی اختلاف، خاندانوں کاباہمی اختلاف غرضیکہ ہر طرف اختلاف ہی اختلاف ہے اور ہر آدمی دوسرے سے مختلف و منحرف نظر آتاہے۔ دورِ حاضر دورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن خرابیوں کو دور کرنے اور اِن پر قابو پانے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیںانسانی شہ دماغوں کی آسمانی ہدایات کے خلاف نئی نئی تجاویز تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ منزل دن بہ دن دور ہوتی چلی جارہی ہے ،اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اُس نسخۂ شفا سے اعراض ،جس نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی انسانیت کو صلاح وفلاح اور عظمت وبلندی کی معراج پر پہنچادیا تھا۔ جس نے عرب کے بدوؤں کو اندازِ جہاں بانی وجہاں گیری سکھلادیے تھے ۔جس نے اُن لوگوں کو.
جن پر حکومت کرنا بھی کسی کو منظور نہ تھا،سارے عالم کے تخت وتاج کا مالک بنادیا تھا۔جس طرح جاہلیتِ قدیمہ میںیہ نسخۂ شفا کارگر تھا،اسی طرح موجودہ جاہلیتِ جدیدہ میں بھی یہی نسخہ کارآمد ہے بلکہ واحد علاج،اس لیے ضرورت ہے ان تدبیروںکو جاننے ،سمجھنے اوراس نسخۂ کیمیا کواپنانے کی، جو نبیٔ اُمّی ختم الرسل دانائے سُبُل رحمۃ للعالمین ﷺنے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ پر لانےبلکہ اوروں کا راہ بر بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے جہالت وسفاہت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیاتھا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مُردوں کو مسیحا کردیاتھا۔خاتم النببین ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں تمام مسائل کا حل اور تمام مشکلات کا مداوا ہونا.
صرف ہمارا یا صرف مسلمانانِ عالم کا دعویٰ نہیں،بلکہ ہر دور کے منصف مزاج غیر مسلم بھی اس کا واضح لفظوں میں اعتراف کرچکے ہیں۔تفصیل ضخیم کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گرا آج ہم نبیﷺ کی پُرنور تعلیمات کے روشن چراغوں کو اپنی زندگیوں میں جگہ دیں گے تو اُجالا ہی اُجالا ہوگا۔ اندھیرا چھٹے گا، ظلم مِٹے گا، تنگیاں کشادگیوں میں تبدیل ہوں گی، زندگیاں پُرکیف بنیں گی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے ۔ آپﷺہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دنیا راہ پرآسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل اورجملہ خرافات و مصائب سے نجات کا نسخہ کیمیا آپ ﷺکی زندگی میں ہی مل سکتا ہے۔ ذیل میں دورِحاضر کے بڑے بڑے مسائل اور سیرتِ طیّبہ کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا جارہا ہے: اتحاد واتفاق کا قیام: قرآن مجید اور اس کی تفسیر حدیثِ رسولﷺ میں اللہ نے اپنے قوانین بیان فرمائے ہیں۔ان قوانین میں ہر ایک کی مصلحت کی رعایت اور اِس پر چلنے والوں کے لیے دنیا وعقبیٰ میں سکون و راحت کی بشارت ہے.
اِسی کے ذریعے دنیا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے،اتحاد واتفاق کے شگوفے پھُوٹ سکتے ہیں،خوش حالی واستحکام کی بہاریں آسکتی ہیں۔یہ محض دعویٰ نہیں بکہ جس دور میں بھی اِس قانون کو نافذ کیا گیا،دنیا نے اِس کے ثمرات کا کھُلی آنکھوں مشاہدہ کیا۔ آج بھی ضرورت ہے اِسی نسخۂ کیمیاکی طرف آنے اور اسے اپنانے کی۔ دنیا پیاسی ہے دعوتِ توحید ، دعوتِ رسالت،دعوتِ قرآن وسنت اور اور دعوتِ ایمان کی۔ قومی و نسلی اختلافات کاخاتمہ:پہلے کی طرح آج بھی لوگ قومی تفاخر اور نسلی اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔کالے گوروں کا اختلاف، علاقے علاقے کااختلاف، ملکی اور غیرملکی امتیاز، اِن تمام اختلافات و امتیازات کی وجہ سے جو پریشانی پہلے تھی اِس سے کہیں زیادہ آج ہے۔ پہلے تو دنیا کی قومیں الگ تھیں، لیکن آج جبکہ ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے ہر دوری نزدیکی میں بدل چُکی ہے اور پوری دنیا ایک خاندان اور گھر کی طرح (Global Village)بن گئی ہے.
قومی تفاخر، نسلی اختلافات و امتیازات کو ختم کر کے ہی سکون کا سانس لیاجاسکتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ اِس طرح کے تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے،یہی وجہ ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ ﷺنے ان تمام امتیازات کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرماکر قیامت تک آنے والی انسانیت کو یہ سبق دیا :تم سب ایک خالق کی مخلوق اور ایک معبود کی عبادت کرنے والے ہو،اِس لیے اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولادہو اور تمہارے باپ(آدم علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد 4 صفحہ 289) غیرمسلموں سے معاہدے اور اس کے تبلیغ ِدین پر اثرات: رسول اللہ ﷺنے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اوس اور خزرج اور یہود و نصاری سے معاہدات کیے.
آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کی دستاویزات مرتب کیں، پھر اپنی تحریکِ دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ مقامی لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے اور چندہی برسوں میں سارا عرب کلمۂ توحید کاقائل ہوگیا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ غیرمسلموں سے معاہدے کرنا درست اورجائز ہے کیونکہ دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول سازگار کرنا ضروری ہے۔ اِسی کے ساتھ احکامِ الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہنا رسول اللہ ﷺکی سنت ہے، اِسی طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتا ہے۔ آج کا دور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دور ہے۔ عام لوگوں میں معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اِسلام کا صحیح تعارف کرایا جائے اور اِس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال کیے جائیں تو پھریہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے۔آج دنیا بے راہ روی، ظلم و ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی ہے۔ اِس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی.
امن وآشتی کی، اطمینان اور سکون کی، اِسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ جرائم کے خاتمے کا واحد ذریعہ اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ:آج دنیا کا ہر ملک جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے،جس ملک کو دیکھیے سخت سے سخت قوانین ہونے کے باوجود،جرائم ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔روز بروز فسادات ہورہے ہیں۔ قتل ایک آسان کام بن گیا ہے۔کرپشن اور لوٹ کھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔زنا اور شراب نوشی عام ہے۔ ایک دوسرے پر تہمت لگانا کوئی بڑی بات نہیں،گلی محلے سے لے کر مین اسٹریم میڈیا کے ٹاک شوز تک اور کچہری سے لے کر سیاسی ایوانوں تک الزام تراشی واتہام بازی کا چلن عام ہے۔رشوت اورسفارش کے بغیر کوئی کام ہوجائے تو حیرت ہونے لگتی ہے۔ سودخوری کو معیشت کا جزوِلازم بنالیا گیا ہے اور یہ برائی،جو اللہ رسولﷺ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے.
دنیا کی ضرورت میں داخل ہوگئی ہے۔آئے دن اغوا ،زیادتی وآبروریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔غرض گناہ وسرکشی اور عدوان ومعاصی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہر طرف نظر آرہا ہے۔ان سب جرائم کا علاج اسلامی احکام کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔ اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عام کرنے کی ضرورت:موجودہ دور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخروغرور، ریاودکھلاوا، غداری ودھوکا دہی، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی؛ غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں عام ہیں۔ عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط پایاجاتاہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی وشناعت اوراس کے دنیوی واخروی نقصانات کومعقول انداز میں بیان کیا جائے؛ تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو.
اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺکے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور ان کو اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔اس کے لیے ضرورت ہے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے اوراس کی تفسیر کو عام کرنے کی، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی اہتمام ہو، غیروں کے بجائے اپنی خرابیوں پر غور کیاجائے اوراصلاح کی کوشش کی جائے؛ نیز تذکیر و موعظت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کیا جائے ۔ دنیا کو بتایا جائے کہ خاتم النبیین ﷺکی اصل بعثت کا مقصد دنیا کو اعتدال پرلانا تھا،اِس کے لیے آپﷺ کی دعوت میں درج ذیل امور کااہتمام تھا:غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح ،اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کوروشناس کرانا،اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کرنا،ہر ایک کے حقوق وفرائض کو واضح کرنا، کمزور طبقات مثلا ً:عورتوں.
بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرماکر ان کی ادائی کی تلقین،معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت،احکامِ الہی کی تعمیل کی تلقین کامزاج بنانا،آیات واحادیث کی تعلیم کے ساتھ ان پر عمل کرنے اور خود احتسابی کی تعلیم ،آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد کرنے اور ان کے مذاکرے کا ماحول ،اخلاقِ رذیلہ کی خرابیوں کو بیان کرکے ان سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار کرنے کی تلقین،ایسا ماحول بنانا کہ ہر شخص دعوت، اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگے۔ ہماری عملی زندگی سیرت رسول سے بہت دور ہے۔ نبی اکرم ﷺکو اللہ تعالیٰ کا برحق رسول تسلیم کیا جائے، آپ کی تعلیمات کو پاکیزہ تعلیمات مانا جائے، یہ صرف اعتقادی وابستگی ہے۔الحمدللہ!ہر مسلمان سیرت سے اعتقادی وابستگی رکھتا ہے،لیکن یہ کافی نہیں،بلکہ سیرت سے عملی وابستگی مطلوب ہے.
آپ ﷺکی سیرت اور آپ کے طورطریق کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس حوالے سے مسلم امہ کافی کوتاہی کا شکار ہے۔مسلمان نماز کی حالت میں تو سیرتِ رسول کے پابند ہوتے ہیں ، لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں وہ خود کو سیرت سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ایک مسلمان نماز ویسے ہی ادا کرتا ہے جیسے رسول اکرمﷺنے ادا کی تھی، لیکن اس کی تجارت اور معاشرت ویسی نہیں ہوتی جیسی رسول اکرمﷺ کی تھی، اتباعِ سنت اور اسوہ حسنہ کو امت مسلمہ میں عام کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلانی ہوگی.