عہد حاضر میں اردو شاعری کو بہت مقبولیت حاصل ہے جو جنوبی ایشیاء کی تہذیب کا ایک اہم حصہ بھی ہے ۔ برطانوی دور میں اردو زبان نے فروغ پانا شروع کیا اور آج اردو بین الاقوامی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زبان بھی ہے ۔ میرتقی میر،خواجہ میر درد، غالب، علامہ محمد اقبال، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز وغیرہ اردو شاعری کے اہم شعرا ہیں، جنھوں نے اردو شاعری کو نئے موضوعات سے ہم آہنگ کیا ۔
اردو شاعری میں فطری احساس پایا جاتا ہے جس کو کاغذ کی حد تک محدود نہیں رکھا جاتا بل کہ اس کو پڑھا،گایا ، سنا اور سنایا بھی جا سکتا ہے اور عہد حاضر کے نوجوان اردو شاعری میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں جس کی جھلکیاں سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
افسوس کہ ہم اپنے اردگرد کے شعرا و نثرنگاروں پر نظر نہیں دوڑاتے ان کے کلام پر داد نہیں دیتے اور نہ ہی ان کی اس خدادادصلاحیت کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے شعرا ہیں جن کا کلام روح کو تازگی اور قلب کو سرور بخشتا ہے، جن کا کلام دلوں میں ولولہ پیدا کرتا ہے ,جن کا کلام نوجوان نسل میں ابھرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے مگر ہم ان سے ہی غافل ہیں ۔
والدین اور اساتذہ بچوں کی انگریزی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں اور اردو کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں ۔ اردو ہمارے نصاب کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے طلبہ کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکی جس کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔ ہم ایک شخص کے کلام کو کسی دوسرے شخص سے منسوب کر دیتے ہیں یا اس میں ردوبدل کر دیتے ہیں نیز جو اردو لکھتے یا بولتے ہیں ان میں بھی املا کی غلطیاں سرزرد ہو رہی ہیں۔
یہ مضمون عہد حاضر کے ان شعرا کے نام جو بغیر کسی اجرت کے اردوادب کی خدمت میں مگن ہیں۔ انھیں کسی اور زبان کی دھن سنائی نہیں دیتی یہ مضمون ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے اور نوجوان نسل کو ان سے آگاہ کرنا اور ان کے کلام کو منظر عام پر لانا ہے ۔کچھ پسندیدہ اشعار کا انتخاب ملاحظہ کریں:
صرف اتنا ہی نہیں کہ سخن چیختا ہے
میں ہوں کشمیر میرا سارا بدن چیختا ہے
(عاصم سلیم بٹ ، آزادکشمیر)
اے پرچم وطن ترے سائے میں بیٹھ کر
رہتے ہیں ہم تو اور بھی بے چین آج کل
(عبدالرزاق بیکل ، آزادکشمیر)
اس اک بات پہ اٹکی ہوئی ہے سانس مری
میں مر گیا تو مرے خواب کون دیکھے گا
(سید شہباز گردیزی ، آزادکشمیر)
ساتھ اپنے جو بھی تھے ان کو رلانے میں لگا
اپنے گھر کا جس گھڑی ملبہ ہٹانے میں لگا
( بشارت تنشیط ، آزادکشمیر )
فضا میں ہر سمت ہیں اندھیرے
کہاں گئے وہ گلاب چہرے
(عبدالحق مراد ، آزادکشمیر)
معصوم ہو کے پیاسے ہیں جو خون کی ہولی کھیلتے ہیں
ان خون آشام درندوں کو انساں سمجھنا مشکل ہے
(پروفیسر شفیق راجہ ، آزادکشمیر )
یوں تو گلشن میں بہاروں کا سماں ہے لیکن
پھول کھلتے ہی نہیں ، اب بھی خزاں باقی ہے
(ڈاکٹر میر یوسف میر ، آزادکشمیر )
سر بکھیرتی غزل میں نغمگی کا ذائقہ
روح میں اتر گیا ہے شاعری کا ذائقہ
( مشتاق بخاری ،آزادکشمیر )
زندگی یوں جدائی میں کاٹی افق
ہم بھی جلتے رہے ، وہ بھی چلتے رہے
(شہزاد افق ، پاکستان )
جس شہر میں ہو خواب چرانے کی واردات
کیسے کروں وہاں پہ میں تشہیر خواب کی
( ارم زہرا ، پاکستان )
تعبیر کچھ بتاؤ کہ تدبیر کر سکوں
خوابوں میں آ رہے ہیں کئی برگذیدہ لوگ
(حسیب کمال ، آزادکشمیر )
اس کے جیسا تو جہاں میں کچھ نہیں
ماں کے جیسی تو کوئی نعمت بھی نہیں
( نسیم چغتائی ، آزادکشمیر )
میں اپنے وجود کا اقبال کر نہیں سکتا
مرے وجود کے اندر بغاوتیں ہیں بہت
( اسلم راجا ، آزادکشمیر )
ظلم سہنے سے تواچھا ہے بغاوت کر دیں
جسے مرنا ہے وہ آئے سر بازار مرے
( لطیف صمیم ، آزادکشمیر )
اعلان میں کہا گیا پُر امن ہے جلوس
چپکے سے سب کے ہاتھ میں پتھر دئیے گئے
( پروفیسر شفیق راجہ ، آزادکشمیر)