ایک زمانہ تھا جب کراچی کی سڑکیں صبح لوگوں کے جاگنے سے پہلے پانی سے دھلا کرتی تھیں۔ آج کے کراچی سے وہ کراچی بہت مختلف تھا ۔کسی کو اس وقت یہ گمان بھی نہ تھا کہ کبھی کراچی پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ ایک طرف لوگ ٹھاٹھیں مارتے سمندر اوردوسری طرف حب ڈیم کے قریب بھی بوند بوند پانی کو ترسیں گے۔
ووٹ جیسی امانت جب کسی اہل فرد کے حق میں استعمال کیا جاتاہےتو مئیرعبدالستارافغانی جیسےامانتدار لوگ شہر کے ذمّہ دار بنتے ہیں۔ مئیر عبدالستار افغانی صاحب پہلی بار 9 نومبر 1979 میں کراچی کے مئیر منتخب ہوئےان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا جب آپ کراچی کے مئیر بنے تو آپ نے شہر کی خدمت پوری دیانتداری سے کی اور شہر کی وسعت اور بڑھتی ہوئی آبادی کو مدّ نظر رکھ کر پانی کی فراہمی کا انتظام کیا یہی وجہ تھی کہ ان کے دور میں پانی کچی آبادیوں میں بھی آیا کرتا تھا اور شہر میں پانی کی قلت نہیں تھی ۔مئیر افغانی صاحب شہر کی خدمت کی بدولت دوبار مئیر منتخب ہوئے آپ کو12فروری 1987 میں جبرا برطرف کیا گیا اس کے بعد ایم کیوایم کے داکٹر فاروق ستار کراچی کے مئیر بنےایم کیوایم کی لسانی سیاست نے کراچی کو اپنی منزل سے دور کردیا سب سے پہلے شہر کا امن وامان تباہ ہوا اس کے بعد جہاں پورے شہر پر تباہی آئی وہاں پانی کا نظام بھی مافیا کے ہاتھوں میں آگیا ۔جن لائنوں میں پانی پابندی سے آتا تھا ان سے فراہمی آب طویل تعطل کے بعد آنے لگا اور کئی علاقوں میں پانی نلوں سےسرے سے ہی غائب ہوگیا۔
14اگست 2001 میں سابق ناظم کراچی نعمت اللہ ایڈوکیٹ جن کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے تھا، کراچی شہر کے ناظم بنےمگر اب کراچی شہر ایک تباہ حال شہر تھا، ہر طرف بدامنی کا دور دورہ تھا سڑکیں، گلیاں اور پارک سب ٹوٹی پھوٹی اور ویران تھے ہر طرف بد امنی تھی مگر نعمت اللہ خان نے پیرانا سالی کے باوجود جوانوں کی طرح اس شہر کی خدمت کی جس کا اعتراف اپنے اور پرائے سبھی لوگوں نے ان کے انتقال کے موقع پر کیا۔ نعمت اللہ خان صاحب نے کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مدّنظر رکھتے ہوئے پانی کی ضرورت کو پورا کیا آپ نے حب ڈیم سے پانی کی فراہمی کے سسٹم کو ٹھیک کیا اس کے بعد پہلے سے موجود لائنوں کو درست کیا اور نئی لائینیں ڈلوائیں مگر آپ جانتے تھے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ بھی ناکافی ہے آپ نے کے تھری کے نام سے ایک فراہمی آب کا منصوبہ شروع کیا اور اس کو برق رفتاری سے صرف چھ بلین روپے میں 2004 میں مکمل کردیا اس سے کراچی والوں کو روزانہ کی بنیاد پر ایک سو ملین گیلن پانی ملنے لگا پانی کی قلت اس وقت کے حساب سے کافی حد تک کم ہوگئی تھی مگر اس کے باوجود نعمت اللہ صاحب نے ایک اور فراہمی آب کا منصوبہ منظور کرایا، جس سے روزانہ کی بنیاد پر 150 بلین گیلن پانی فراہم ہونا تھا اور جس کا نام کے فور تھا، اس منصوبے کا بجٹ 25.5 بلین روپے کا تھا اور نقشہ تیار ہوچکاتھا مگر کام کے آغاز سے پہلے آپ کی مدت نظامت جون 2005 میں ختم ہوگئی۔
اس کے بعد دوبارہ کراچی ایم کیو ایم کی لسانی سیاست کے حوالے کردیا گیا ۔نئے ناظم شہر مصطفے کمال تھے انہوں نے شہر کے لیے پانی کی ضروریات کو نظر انداز کیا اور کے فور پانی کے منصوبے کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اس منصوبے کے روکے جانے کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کراچی کو سندھ کا حصّہ تسلیم بھی کرتی ہےاور اس سے اپنا حصّہ بھی وصول کرتی ہے مگر اس شہر کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک اوّل روز سے جاری رکھے ہوئے ہے اور رہ گئی با ت ایم کیوایم کی تو اس کا ایجنڈا کبھی بھی کراچی کی ترقی اور خوشحالی کا نہیں رہا ہے اس کا ثبوت ان کی تیس سالہ کارکردگی ہے ہر دفعہ وفاق اور سندھ میں حکومتوں کا حصّہ بننا ان کی اوّلین ترجیح رہی ہے۔
آمر مطلق جرنل پرویز مشرف کے زمانے میں تو ان کے روٹھنے اور منانے کے کھیل نے تو حد ہی ختم کردی ۔ آج کراچی کے مردوں ،عورتوں اور بچّوں کے ہاتھوں میں پانی کی بالٹیاں ہیں اور وہ پانی کے حصول کے لیئے سرگرداں ہیں جن لوگوں کی مالی حالت اچھی ہے وہ بھی ٹینکر وں کا پانی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں ۔شہر کے اندر قانونی اور غیر قانونی ہائیڈ رینٹ دونوں موجود ہیں اور سرکاری سرپرستی میں چل رہے ہیں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سند ھ کی حکومت پانی کی کمیابی کا رونا روتی رہتی ہے اور ٹینکروں کے زریعے پانی مہنگے داموں فروخت ہورہے ہیں جن سے حاصل ہونے والی آمدنی ،کسی مردارکے گوشت کو جس طرح گدھ نوچ نوچ کر کھاتی ہےاسی طرح پانی کی قلت کے شکار عوام سے حاصل ہونے والی اس آمدن کو سرکاری اہلکار وزراء اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کھاتے ہیں۔
ٹینکر ز کےذریعے پانی کی فروخت سرکاری سرپرستی میں ایک طاقتور مافیا بن چکا ہے جس نے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تک کو غلام بنا لیا ہے پورے شہر میں یہ ٹینکر دن رات دندناتے پھرتے ہیں غیر تربیت یافتہ ڈرائیور ان ٹینکروں کو چلا تے ہیں جس کے سبب حادثات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔سڑکیں پہلےہی ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ان ٹینکروں سے گرنے والے پانی سے مزید سڑکیں ٹوٹ رہی ہیں۔ شہر کے اندر سینکٹروںغیر فعال پمپنگ اسٹیشن موجود ہیں اور ان میں ہزاروں ملازمین تعینات ہیں یہ سب سیاسی بھرتیاں ہیں۔ وال مین پانی کی سپلائی سے پہلے اپنے ایجنٹوں کو ان علاقوں اور گلیوں میں بھیجتا ہے جو فی گھر سو دوسو روپے رشوت وصول کرتے ہیں پھر ان علاقوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ واٹر اینڈ سوریج کے کرپشن کا یہ حال ہے کہ دفاتر میں بیٹھ کر اس کا عملہ وہ رقم بھی ہڑپ کررہا ہے جو لائینوں کی مرمت کی مد میں مختص کی گئی ہوتی ہے ۔اس کا ثبوت پورے شہر میں پینے کا پانی ٹوٹی ہوئی پائپ لائنوں سے نکل کر ضائع ہوتا رہتاہے جس کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں رہی ہیں ۔آبادیوں کا پانی صنعتی علاقوں میں قائم کارخانوں دیا جاتاہے یہ کام وال مین اور انجینئیر سپلائی کی پائپ لائنوں میں اسٹیل کی پلیٹیں ڈال کر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو پانی نہ آنے یا کم آنے کی وجہ پتا ہی نہ چل سکے ۔ 8ستمبر کو ہونے والے جماعت اسلامی کے دھرنے میں جو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی کے سامنے شاہراہ فیصل پر دیا گیا تھا اس بدترین کرپٹ ادارے کے سارے کچے چھٹّے کو کھول کررکھ دیا گیا۔
یکم جولائی 2018 کو جب بلاول زرداری اپنی الیکشن مہم کے دوران لیاری تشریف لائے تو انہوں نے ایک اعلان کیا تھا کہ ” وعدہ کرتاہوں کے عوام کو پانی فراہم کرنے کے جو کرنا پڑا کریں گے سمندر کا پانی میٹھا کرنا پڑا تو وہ بھی کریں گے” لیکن بقو ل الطاف حسین حالی
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہوگیا
ایسے ماحول میں یہ بات سچ ہے کہ حق کبھی تھالی میں سجاکر کوئ نہیں دیگا بلکہ عوام کو اپنا جمہوری حق استعمال کرنا ہوگا اور گھروں سے نکل کر سراپا احتجاج بننا پڑیگا۔ آج کوئی سیاسی جماعت عوام کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے آپس میں مفادات کا تعلق اور اتحاد ہے کراچی میں عوام کے حقوق کے لیے اگر سراپا احتجاج ہے تو وہ ہےجماعت اسلامی جس کی تازہ مثا ل حال ہی میں ہونے والا ایک دھرنا تھا جو شاہراہ فیصل پر دیا گیا تھا عوام کی تکالیف پرصدائے احتجاج بلند کرنا صر ف جماعت اسلامی کا طریقہ ہے کیوں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے ” مومن مومن کا بھائی ہے وہ ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوتاہے”۔