ہیلو ہیلو

فون کی گھنٹی بجتی ہے،چینی صدر شی پنگ جن کا پرسنل سیکریٹری فون اٹھاتا ہے دوسری طرف سے آواز سنتے ہی وہ فون صدر محترم کے حوالے کر دیتا ہے۔یہ امریکی صدر جو بائیڈن تھے۔دونوں سربراہانِ مملکت کے درمیان معمول کے حالات و واقعات زیر بحث آتے ہیں، افغانستان کے سیاسی حالات جب زیر بحث آتے ہیں تو چینی صدر اپنے لہجہ کو ذرا بدلتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ جنگ دو ممالک کے درمیان تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

چینی صدر کے اس جواب سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا کہ جب پاکستان میں نیا نیا پی سی اوز کھلنے کا کاروبار شروع ہوا تو میرے ایک دوست نے بھی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسا پی سی او کھول لیا جس کی آپریٹر ایک خاتون تھیں۔اب ایک پسماندہ شہر میں ایک خاتون کا پی سی او چلانا عجب ہونے کے ساتھ ساتھ کاروباری چالاکی بھی تھی کہ ایک تو اس پی سی او میں مرد گاہکوں کی تعداد میں دیکھتے ہی دیکھتے اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور دوسرا کبھی پی سی او کی طرف سے کوئی زیادتی ہو بھی جاتی تو لوگ یہ سوچ کر وہاں سے چلتے بنتے کہ خاتون ہے اس کے ساتھ کیا بحث کرنا۔ایک روز کیا ہوا کہ کوئی رات کے دس بجے ہم کچھ دوست پی سی او پر گپ شپ میں مصروف تھے کہ ایسے میں ایک ادھیڑ عمر خاتون کراچی میں اپنے کسی عزیز سے بات کرنے کے لیے پی سی او میں داخل ہوئیں۔نمبر ملا دیا گیا اور خاتون مصروف گفتگو ہو گئی۔چونکہ کراچی کال کے پیسے زیادہ تھے تو ڈیوٹی پر موجود خاتون اسے ساتھ ساتھ بتا رہی تھی کہ ماں جی ایک منٹ ہو گیا،ماں جی اب تین منٹ ہو گئے،ماں جی اب پانچ منٹ ہو گئے۔پی سی او پر ڈیوٹی دینے والی خاتون کا مقصد صرف یہ تھا کہ ماں کو پتہ چل جائے کہ پیسے بڑھتے جا رہے ہیں۔میرے ایک دوست نے خاتون کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ ماں کو منٹ بتانے کی بجائے پیسے بتائو کہ کتنے ہوگئے ہیں۔یہ سنتے ہی ڈیوٹی خاتون نے کہا کہ ماں جی پانچ سو روپے ہو گئے ہیں۔پیسے سنتے ہی ماں نے ایک دم سے فون پٹخا اور چلاتے ہوئے گویا ہوئی کہ’’ تیرا ککھ نہ رہوے پنج سو کاہدے‘‘۔

ہو سکتا ہے امریکی صدر نے بھی فون پٹختے ہوئے یہی کہا ہو کہ تیرا ککھ نہ رہوے،کیونکہ یہ کال کوئی عام کال نہیں تھی اور مابین گفتگو بھی کسی عام موضوع پر نہیں تھی۔کال دو بڑی عالمی طاقتوں جبکہ زیر بحث ایک ایسا ملک جو اپنی ٹیکنالوجی،تعلقات اور معاشی استحکام کی بدولت اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہا ہے۔یعنی چین خود۔صدر شی کا جواب اس بات کا بھی عندیہ ہے کہ امریکا اب کسی اور بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس افغانستان سے قبل اس نے جتنی بھی جنگیں لڑیں ان سب میں اسے شکست کا ہی سامنا کرنا پڑا۔وہ ویت نام ہو ،کوریا یا خلیجی جنگ،تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ کو کبھی کامیابی نہیں ملی اور اب تو دنیا کی عسکری و معاشی صورت حال یکسر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔

وہ اس لئے کہ اب جنگ اسلحہ،ہاتھی گھوڑوں اور پیادوں کی نہیں بلکہ ففتھ جنریشن سے بھی کہیں آگے نکل کر معاشی کنٹرول کی ہو گئی ہے۔اسی معاشی برتری کے سبب ہی کہا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کی معیشت امریکہ سے نکل کر چین کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔اور چین جس طرح معاشی طاقت بنتا جا رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ وہ عالمی معیشت کو ایسے کنٹرول میں لے گا کہ جب جس ملک کو چاہے اپنے مطابق چلنے پر مجبور کر دے گا۔

اگر حالیہ BRTI منصوبے سے اندازہ لگائی تو ایسے دکھائی بھی دے رہا ہے کہ عنقریب جب چین کا یہ پراجیکٹ مکمل فعال ہو جائے گا تو ایشیا،یورپ،وسطی ایشیا اور روس وغیرہ سب کے سب اس کے ساتھ معاشی تعاون میں ساتھ کھڑے ہوں گے۔گویا ایک لحاظ سے یہ تمام ممالک چین کے معاشی اتحادی بھی ہوں گے۔اب دیکھتے ہیں کہ چین ان ممالک کو کیسے معاشی طور پر کنٹرول میں لائے گا۔اس کے دو طریقے ہیں،ایک ان ممالک کو قرض دے کر اورپھر اسے معاف کر کے۔اس عمل کو debt trap policy کہا جاتا ہے جیسا کہ چین نے سری لنکا میں کیا کہ اس کو پہلے قرض دیا پھر اسے ان کی بندرگاہ استعمال کرنے کے عوض معاف کردیا۔دوسرا طریقہ معاشی اتحادی بنا کر جیسا کہ جن ممالک سے بھی سی پیک اور ریلوے ٹریک گزرتا ہے ان ممالک سے معاشی معاہدات کے ذریعے سے۔گویا دونوں صورتوں میں چین دنیا کی معاشی پالیسیوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر انداز ہوگا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا ہمیشہ طاقتور کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔کمزور اور بزدل کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔یہ سیاسی فلسفہ آج سے سینکڑوں سال قبل کوتلیہ چانکیہ نے اپنی کتاب ارتھ شاستر نے بیان کردیا تھا کہ معاشی طور پر کمزور ممالک کو طاقتور ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھنے میں ہی ان کی بقا اورعافیت ہے۔اس لئے کمزور ممالک کو ہمیشہ نزدیکی سپر پاور سے تعلقات اچھے بنا کر رکھنے چاہئے۔تاکہ وہ اپنی بقا کی جنگ اچھے طریقے سے ممکن بنا پائیں۔اب موجودہ صورت حال میں اگر سپر پاور کا ٹیکہ امریکہ کے ماتھے سے اتر چین کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے تو دنیا خود بخود ہی چین کے بلاک میں داخل ہو جائے گی کیونکہ کمزور اور غریب ممالک کو اپنی بقا سپر پاورز کے ساتھ بنا کر رکھنے میں ہی مضمر ہے۔چین اور امریکہ کی کال کی اس ہیلو ہیلو کے بعد دیکھتے ہیں دنیا کی معیشت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔