درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ نہ تھی کروبیاں
اس بات سے ہم لوگ بخوبی واقف ہیں کہ انسانیت کوئی عام شے نہیں ہے۔ انسان جب انسانیت کے لبادے اوڑھتا ہےاور انسانیت کے عناصر کو اپنی زندگی کا حصہ بنا تا ہے ، تو پھر وہ قابل فخر اور قابل مثال بن جاتا ہے اور سماج میں قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔اس کے برعکس انساں اگر انسانیت کے لبادے اتار دیتا ہےاور اس کی زندگی الگ الگ راہوں سے گزرنے لگتی ہے۔
جہاں انسانیت کی سرحدیں نہیں ملتی ، تو وہ انسان انسانوں کیلئے بری مثال بن کے ابھر تا ہے اور سماج میں اس طرح کے لوگوں سے انارکی جنم لیتی ہیں۔ انسان جب پیام انسانیت کے حصول میں سرگرداں اور اس کی تلاش میں اپنے آپ کو صرف کرتا ہے۔اس درمیان انسان کی زندگی کا ایک لمبا سفر طے ہوجاتا ہے،تب جاکر انسان کہیں انسان بن پاتا ہے۔اس لئے تو کہا جاتا ہے، انسان اور انسانیت کے مابین ایک لمبا سفر، یہی تو زندگی ہے،جو ادب،اخلاق،تہذیب وثقافت ،رحمدلی وغمخواری، اورباہمی تعاون کی خوبصورت وادیوں سے گزر کر طے ہوتا ہے۔انسان عربی زبان کے لفظ الانس سے ماخوذ ہے،جسکے معنی آدمی اور بشر کے ہیں، انسانی شکل وصورت، قدو قامت، اعضاء وجوارح، انکے درمیان مناسبت اور انکی خوبیوں پر غور کیا جائے، پھر اس کائنات میں موجود کسی بھی جاندار مخلوق سے اسکا موازنہ کیا جائے، تو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دیگر تمام مخلوقات میں سب سے افضل وبرتر ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ترجمہ’’: اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دیاوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو پاکیزہ روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل بنایا۔‘
انسان کے اشرف وافضل ہونے کا ایک اہم راز اسکے دیکھنے،سننے کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کا صاحب عقل وفہم و ادراک کا حامل ہونا ہے، اچھے اور برے کے درمیان تمیز کرنے اور پھر اپنے قوت ارادہ سے کسی کو اختیار کرنے کی وہ قوت و صلاحیت دی گئی ہے، جو کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔انسانیت ایک ایسا جذبہ ہے ، جو انسان کو انسان سے منسلک رکھتا ہے،اور ہمیشہ جس سے امید کی کرنیں روشن نظر آتی ہیں، اگر یہ احساس انسانیت ناپید ہو جائے، تو وہ معاشرہ، قوم، ملک یا سلطنت تباہی اور بربادی کی نذر ہوجاتی ہے، تاریخ اس بات پر شاہد و عدل ہے، کہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرے کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے جب خودغرضی اور بد اخلاقی کے بجائے، مثبت انسانیت کے جذبہ کو فروغ دیاجائے۔رنگ و نسل،ذات پات ،مسلک و مذہب کی تفریق سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کے کام آنا ہی انسانیت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسان کو نفع پہنچا ئے، اسی جذبہ کو باقی رکھنے کے لئے اقوام متحدہ ہر سال 10 دسمبر کو یومِ حقوقِ انسانیت مناتا ہے، تاکہ انسانیت زندہ رہے۔ عالمی یومِ حقوقِ انسانیت منانے کا مقصد ان انسانوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے، جو دوسرے انسانوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں’جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا، انسانیت کا سب سے بڑا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں کہ لئے وہی سب کچھ چاہیں، جو اپنے لئے چاہتے ہیں۔ جس طرح انسان اپنی ذات کے لئے۔ آرام۔ عزت۔ آزادی۔ انصاف۔ چاہتا ہے ، ایسا ہی دوسرے انسانوں کے لئے چاہے۔ دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ہونا ایک قابل فخر بات ہے۔وہیں انسانیت قابل فخر ہونے کے احساس کا نام ہے۔کیونکہ انسانیت کردار کے عظمت کی دلیل ہے،جو عظیم ترین مخلوق ہونے کا احساس دلاتی ہے, انسان انسان کو ایسی نظر سے دیکھتا ہے، جو انسانیت سے لبریز ہوتی ہے,ظاہر سی بات ہے یہ سفر انسان کے لئے آسان نہیں ہے ، اس کی پیمائی میں صدیاں بیت جاتی ہیں، اور ہزاروں طرح کی قربانیوں سے گزر کر انسان اس وادی میں پہنچ جاتا ہے۔
موجودہ دور میں اگر یہ کہا جائے کہ انسان کے ہاتھوں انسانیت دم توڑ رہی ہے تو کوئی غلط نہ ہوگا، مذہبی، قومی، سیاسی، لسانی ،علاقائی اور ذاتیات کی بنیاد پر جب ہم انسانیت کو تقسیم کرتے ہیں تو ایسی صورت میں انسان کے ہاتھوں انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے، اور انسانیت سسک رہی ہوتی ہے، ایک انسان دوسرے انسان کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسے اس کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو،اور آج کا انسان ہواؤں میں پرندوں کی طرح اڑنا ، اور سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرنا تو سیکھ چکا ہے، مگر انسان بن کر زمیں پر رہنا اس کیلئے امر محال ہو تا جا رہا ہے۔ جس کی آج کی دنیا سب سے زیادہ محتاج ہے۔اسلام بلاتفریق ِ رنگ و نسل و مسلک و مذہب، ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ اسلام انسان کو جو حقوق دیتا ہے۔اسلام بلاتفریق ِ رنگ و نسل و مسلک و مذہب، ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ انسانی جان کے احترام کو اسلام فرض قرار دیتا ہے۔ ہر انسان کو جینے کا حق کو صرف اسلام نے دیا ہے۔
مغرب نے اگر اپنے دستوروں میں یا اعلانات میں کہیں حقوق انسانی کا ذکر کیا ہے تو فی الحقیقت اس میں یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ یہ حقوق یا تو ان کے شہریوں کے ہیں، یا پھر وہ ان کو سفید نسل والوں کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، جس طرح آسٹریلیا میں انسانوں کا شکار کرکے سفید نسل والوں کے لیے قدیم باشندوں سے زمین خالی کرائی گئی اور امریکا میں وہاں کے پرانے باشندوں کی نسل کشی کی گئی اور جو بچ گئے ان کو مخصوص علاقوں میں مقید کر دیا گیا، اسی طرح افریقہ کے مختلف علاقوں میں گھس کر انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کیا گیا۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم بلاخوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی جان کا بحیثیت ’’انسان‘‘ کوئی احترام ان کے دل میں نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی احترام ہے تو اپنی قوم یا اپنے رنگ یا اپنی نسل کی بنیاد پر ہے؛ لیکن اسلام تمام انسانوں کے لیے اس حق کو تسلیم کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم وملک، رنگ ونسل اور علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ معاشرے میں ہر شخص کی جان، مال اور آبرو کا تحفظ ہر انسان کا، بلاتفریق بنیادی حق ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ترجمہ’’: تمہارری جانیں، تمہارے مال اور تمہااری آبروئیں، تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن اور اس مہینے میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔‘‘