بت پرستی کی حقیقت تو یہ ہے کہ ’’بت پرستی‘‘اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی اور اس فتنہ کا آغاز آدم ثانی حضرت نوح ؑسے پہلے ہوا تبھی تو نوحؑ نے رب کریم سے عرض کیا ترجمہ :نوحؑ نے کہا کہ اے میرے پروردگار !ان لوگو ں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال واولاد نے انکو (یقینا)نقصان ہی بڑھایا اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبدوں کو نہ چھوڑنا اور نہ وداوراور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا)صحیح بخاری،تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم کے پنج تن پاک کے نام ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ ان بزرگوں کو اتنی شہرت ملی کہ عرب میں بھی انکی پوجا ہوتی رہی۔
ود،سواع ،یغوث ،یعوق اور نسر قوم نوحؑ کے بزرگ تھے۔ جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو ابلیس نے ان کے عقیدت مندوں سے کہاکہ ان بزرگوں کی مورتیاں اور تصویریں بناکراپنے گھروں میں نصب کرلو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کو دیکھ کر تم بھی نیک عمل کرسکوجب یہ مورتیاں اور تصویر بناکر رکھنے والی قوم مرچکی تو ابلیس نے اگلی نسل کو مورتیوں ،تصویروں کی عبادت پر لگا دیا اور اس طرح باقاعدہ بت پرستی شروع ہوگئی۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ نوح 2ص732)
(سورۃ النجم 19)میں ارشاد باریٰ تعالیٰ ’’بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا‘‘لات اس بت کا نام تھا جس کی مشرکین عرب عبادت کرتے تھے ۔اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ترجمہ:لات ایک آدمی کا نام تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا جب اس کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے اسکی قبر کو عبادت گاہ بنالیا۔
مشرکین عرب نے فرشتوں کو بھی اپنا معبود بنالیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے (سورۃ سبا41,40)
سنن ابودائود کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب رسول کریم ؐ نے کعبۃاللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ ؐ نے حکم فرمایا :ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
‘‘مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ’’الرحیق المختوم‘‘میں لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم ؐ انصار اور مہاجرین کے جلو میں مسجد حرام کے اندر تشریف لائے آگے بڑھ کر حجرِاسودکو چوما اور اس کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا ۔اس وقت آپ ؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی اور بیت اللہ کے گرد اور اسکی چھت پر تین سو ساٹھ بت تھے ۔آپؐ اس کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے جاتے تھے ’’حق آگیا اور باطل چلا گیا باطل جانے والی چیز ہے‘‘حق آگیا اور باطل کی چلت پھرت ہوگئی ‘‘اور آپ ؐ کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گرتے جاتے تھے ۔آپؐ نے طواف اپنی اونٹی پر بیٹھ کر فرمایا اور حالتِ احرام میں نہ ہونے کی وجہ سے صرف طواف پر ہی اکتفاکیا تکمیل طواف کے بعد حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلاکر ان سے کعبہ کی کنجی لی۔پھر آپ ؐ کے حکم سے خانہ کعبہ کھولا گیا ۔اندرداخل ہوئے تو تصویریں نظر آئیں جن میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی تصویریں بھی تھیں اور انکے ہاتھ میں فال گیر ی کے تیر تھے ۔آپ ؐ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا :اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو ہلاک کرے خدا کی قسم ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال کے تیر استعمال نہیں کیے آپؐ نے خانہ کعبہ کے اندر لکڑی کی بنی ہوئی ایک کبوتری بھی دیکھی اسے اپنے دست مبارک سے توڑ دیا۔
حضرت نوح ؑ سے لیکر سرورکونین ،نبی آخرالزمان ،خاتم البنین جناب رسول کائنات ؐ سبھی انبیاکرام ؑ ایک اللہ واحد ہو لاشریک کی عبادت کا حکم دیتے آئے ہیں ۔تمام انبیاکرم اور رسول’’بت شکن‘‘تھے۔اسی صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے لیے امت مسلمہ کے لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق برسرکار رہتے ہیں ۔اس مقدس جدوجہد میں سب سے زیادہ اسی مقدس خطے کے فرزندوں کا حصہ ہے جہاں بت شکن ،مسیحا انسانیت ،رہبر انسانیت ،رہبر کائنات رسول کریم ؐ نے اپنے شب وروز بسر فرمائے ۔آپ ؐ کے وصال کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں اور نہ ہی کبھی رکے گا مسلمان اپنے رہبر ورہنما ،سپہ سالار امن حضرت محمد ؐ کے احکامات پر چلتے ہوئے ہمیشہ بت شکن رہے ہیں تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات کے ساتھ کہ کس طرح مسلمان سلاطین نے کا فروں کے بڑے بڑے معبدوں کو زمین بوس کیا ۔برصغیر پاک وہند میں کروڑوں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی جب 712ھ میں حضرت محمد بن قاسم ؒنے ایک مسلمان عورت کو ایک بت پرست ظالم راجہ دہر کی قید سے آزادی دلانے کے لیے جہاد کیا تھا (اسلام میں فتوحات کا مقصد مال غنیمت یا کشور کشائی نہیں بلکہ ظلم سے آزادی ہے )اورراجہ دہراسکے کروڑوں خدائوں سمیت اپنے گھوڑوں کے پائوں کے نیچے روندتے ہوئے ملتان تک کااسلام کا جھنڈا لہرایا ان کے بعد سلطان محمود غزنویؒ نے سومنات کے بت کو پاش پاش کیا مورخین کے نزدیک نہ تو یہ کوئی عام مندر تھا اور نہ ہی یہ کوئی عام بت تھا ،سومنات کے بت کا تعلق عرب کے لات،منات اور عزیٰ سے جوڑا جاتا تھا سلطان محمود غزنوی کے علاوہ شہاب الدین غوری ایک اور اہم نام ہے جس نے دہلی میں مسلمان حکومت کی مرکزیت کو مستحکم کیا جس کے بعد مسلمان فاتحین ایک سلسلہ برصغیر پاک وہند میں شروع ہوا۔
آج مسلمان اپنے مذہب اسلام سے دور ہوتے ہوتے بزرگ پرستی یعنی شخصیت پرستی سے قبر پرستی اور پھر بت پرستی تک آن پہنچے ہیں۔ جن کی زندہ کئی مثالیں آج ہمارے ہاںناقص العقل مسلمانوں نے قوم نوح ؑ کی طرح اپنے نیک بابوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہوا ہے۔ بات قبروں سے نکل کر بت پرستی تک آپہنچی ہے یہاں پر بڑی بڑی شخصیات کے مجسمے بنائے گئے ہیں جن کی ابھی عبادت تو شروع نہیں ہوئی مگر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کو دیکھ کر ہمیں ان جیسے کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے ،عین ممکن کہ نئی آنے والی نسل باقاعدہ عبادت شروع کردے مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں بت پرستی ہوتی ہے وہاں پر بت شکن بھی جنم لیتے ہیں۔
ایک طویل ترین مدت ہندئووں ،سکھوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ہم ابھی تک انکی فرسودہ روایات ،تہذیب وتمدن سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ آج مسلمانوں میں ہی چند غدارمسلمان(سندھ کے اندر اور چند خود ساختہ دانش ور ) فاتح برصغیر پاک وہند محمد بن قاسم ؒ کو دہشت گرداور بت پرست ظالم ،عیاش کافر راجہ دہر کو ہیرو مانتے ہیں ۔مسلمانوں کی فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت بادشاہی مسجد کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنانے والا ،مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے والا کافرسکھ حکمران رنجیت سنگھ کا مجسمہ لاہور شاہی قلعہ کے اندر نصب کیا گیا ہے جسے چند دن قبل ایک بت شکن نے توڑ دیا جس پر قانون فوری پرحرکت میں آگیا اسلامی ریاست کے مسلمان حاکمین کا کہنا تھا کہ مجسمہ کو دوبارہ ٹھیک کیا جائے گا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا کھوکھلا نعرہ لگانے والے حاکم ِ وقت سے پوچھنا ہے کہ آپ کونسی ریاست مدینہ کو بنانے کے دعویدار ہیں ؟؟؟کہ جہاں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی تصاویر میں ختم کردی گئیں اور یہاں کافروں کے بت بنائے جارہے ہیں افسوس کہ ہم بت شکن سے بت پرستی تک آن پہنچے ہیں۔