یکساں نصابِ تعلیم اور ممکنات

بنیادی طور پرتعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کی بدولت ایک معاشرہ اپنے افراد پر اپنی زندگی عیاں کرتا ہے،انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ کائناتی اور معاشرتی ماحول سے اپنا حصہ وصول کر سکیں۔ہر معاشرہ اسی تناظر میں اپنا نصاب متعین کرتا ہے،اس لئے کہ قوم کی نوخیز کلیوں کا انحصار اسی نصاب پر ہوتا ہے۔نصاب بناتے ہوئے اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے نوجواں نسل کی معاشرتی ضروریات کو مدنظر رکھ کر معاشی مسائل کا حل بھی اس طرح سے پیش کیا جائے کہ عملی میدان میں جب یہی نوجوان داخل ہوں تو انہیں معاشی مجبوریوں کے بغیر اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع مل سکے۔

اس سلسلہ میں مشہور ماہر تعلیم جان ڈیوی کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا ،ان کے بقول نصاب ایسے مضامین ،موضوعات اور عملی سرگرمیوں پر مشتمل ہونا چاہئے جس کی تحصیل کے بعد طلبا خود آگہی اور معاشرتی شعور حاصل کرسکیں۔جب ہم معاشرہ اور اس کی فلاح کی بات کرتے ہیں تو یقینا اس معاشرتی اصلاح کے لئے نظام تعلیم بھی ایک جیسا ہی ہونا چاہئے اور یہ تب ممکن ہوسکتا ہے جب اس معاشرہ میں بسنے والے افراد کے لئے ایک جیسا نصاب اور لائحہ عمل ہو،جس ملک میں نصاب سازی افراد کی صلاحیتوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر کر نہیں بنائی جائے گی وہ معاشرہ کبھی بھی طبقاتی نظام کے چنگل سے باہر نہیں آسکے گا۔اگر قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسی طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے ہی دنیا دو حصوں میں منقسم ہوکر رہ گئی ہے جسے،HAVE AND HAVE NOTS کہا جاتا ہے۔نصاب کی یکسانیت ہی اس تقسیم کو ختم کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔

لیکن یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کیا عملی طور پر ممکن ہے؟بہت سے سوالوں کا ایک ہی سوال کافی ہے۔اس لئے کہ یکساں نظام تعلیم کی تین سال سے رٹ لگانے کے بعد جب عملی نٖفاذ کا وقت آیا تو خان صاحب نے بھی گذشتہ ادوار کی طرح آدھا تیتر اور آدھا بٹیر عوام کے سامنے رکھ دیا۔یعنی پہلے اس نظام کو کلاس پنجم تک لاگو کیا جائے گا اس کے بعد اعلی سطح کی کلاسز پر اس نظام کا عملی نٖفاذ عمل میں لایا جائے گا۔کوئی خان صاحب کو یہ بھی سمجھا دے کہ

مرحلہ بیچ کا نہیں ہوتا

پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

ایک اور عرض ہے کہ کیا یہ نظام عصرِ حاضر کا پیش کردہ ہے یا قبل از تقسیم برصغیر بھی ایسا ہی کوئی تعلیمی نظام ملک میں رائج تھا،اگر ہم تاریخ ِ پاکستان کے صفحات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جب سر سید احمد خان نے مسلمانان برصغیر کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کو معاشی ترقی کا ضرورت قرار دیا تو اسی وقت ہی دوہرے نظام تعلیم کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔اس لئے کہ اسی دور میں جب سرسید احمد خان مسلمانان برصغیر کو انگریزی تعلیم اور جدید تعلیم کی ضرورت اور محاسن پر زور دے رہے تھے انہیں دنوں ملک کے طول وعرض میں انگریزوں نے اپنے بچوں اور اشرافیہ کی نسل کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کر رکھے تھے،جیسے کہ لارنس کالج جو کہ انہی دنوں قائم ہو کر انگریز افسران کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا تھا جب سر سید احمد خان مراد آباد میں تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی سعی میں مصروف عمل تھے ۔لارنس کالج کی بنیاد 1860 میں ہنری منٹگمری لارنس نے انگریز افسران کے بچوں کی تعلیم کے لئے رکھی جو آج بھی اسی شان وشوکت کے ساتھ اشرافیہ،فوجی افسران ،بیوروکریٹ اور فیوڈلز کے بچوں کو زیور تعلیم کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے،ایسے ہی رابرٹ ایجرٹن کے 1886 میں بہاول پور میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں1890 نواب صادق کے اشتراک عمل سے صادق ایجرٹن بن کر آج تک اشرافیہ کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔خود عمران خان کے مادر علمی ایچی سن کی بنیاد بھی 1886میں ہی رکھی گئی۔

اگر ملک میں موجود اداروں کی تقسیم کا مطالعہ کیا جائے تو ملک میں تین طرح سے اداروں سے آپ کا واسطہ رہتا ہے،گورنمنٹ ا سکول،مذہبی مدارس اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی ادارے جنہیں اشرافیہ کے تعلیمی ادارے بھی کہا جاتا ہے۔اب اگر حکومتی معاملات کا اندازہ کریں تو گورنمنٹ کا عمل دخل صرف سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہے،مذہبی مدارس میں حکومت کا عمل دخل اتنا ہی ہے جتنا ہمارے علما کرام انہیں راہنمائی فراہم کردیتے ہیں۔نصاب کی یکسانیت سے مراد صرف اور صرف یہ ہے کہ گورنمنٹ اور مذہبی ادارے تو ایک نظام میں مربوط ہو جائیں گے اصل مسئلہ تو وہیں کا وہیں رہ جائے گا کہ ملک میں دو نظام تو رائج رہیں گے ہی یعنی ایک غربا کے بچوں کے لئے اور ایک فرزندان امرا کے لئے،اگر ایسا ہی ہوگا تو وزیراعظم صاحب کون سا نیا کام کر رہے ہیں،گویا آج بھی ہم دو نظام اور طبقات میں منقسم ہیں جو سر سید کے دور میں تھے۔عمران خان کو چاہئے کہ اگر ایک جیسا نظام متعارف کروانا ہے تو پھر سرکاری،غیرسرکاری اور مذہبی ادروں کو ایک ہی دھارے میں شامل کرتے ہوئے ایسا نظام اور نصاب بنا دیں جو ملکی فلاح،معاشرتی عروج اور مذہبی روائتوں کا امین ہوں،تاہم یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے کہ ان نجی تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں شامل کرنا جن کے کرتا دھرتا خود کسی نا کسی حکومت کا حصہ رہے ہیں،کیا ایسے افراد کی مخالفت ہمارے وزیراعظم صاحب لے سکتے ہیں؟اگر ایسا کر سکتے ہیں تو یکساں نظام تعلیم تو ایک دن میں ہی رائج ہو جائے گا۔

سب سے اہم بات جس کی طرف حکومت وقت توجہ دینے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں نظام کی یکسانیت کی بجائے معیاری تعلیم کی ازحد ضرورت ہے۔ہمیں دینا کے ساتھ چلنے کے لئے دنیا کے نصاب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔اس لئے کہ ہم ابھی ترقی پذیر ہیں ،ترقی یافتہ نہیں۔چین جیسا ملک بھی اب انگریزی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بین الاقوامی معاملات اور معاہدات انگریزی میں کر رہا ہے تو ہمیں کیوں سرخ بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔اگر وزیر اعظم صاحب یکساں نظام تعلیم کے عملی نفاذ کے لئے اتنے ہی سنجیدہ و مخلص ہیں تو پھر کریں بسم اللہ سب تعلیمی اداروں کے مکمل نصاب کو یکساں کرنے کے احکامات جاری کر دیں ،کیونکہ کل کرے تو آج اور آج کرے تو ابھی۔لیکن جس ملک میں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان وزیر تعلیم کی طرف سے جاری کردہ فیسوں کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیتے ہوں وہاں حکومت کی نصاب سازی کو کہا ں تعلیم کرنے والے ہوں گے۔اس لئے حکومت کو چاہئے کہ تعلیمی میدان میں حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم کو ڈگری تک محدود ہونے سے بچا کر اس میدان میں تعلیمی معیار کی طرف متوجہ ہو۔کیونکہ دنیا میں اب مقدار نہیں معیار ہی بکتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔