گندی گلیاں اور ابلتے گٹر

کون ان سے نہیں واقف ! افسوس صد افسوس اچھے اچھے علاقوں، بلند و بالا عمارتوں کے پچھواڑے گندی گلیوں کے نام سے مشہور ہیں اور اس آفت زدہ “کرونا”کے ماحول میں بھی ویسے بھی پھل پھول رہے ہیں بلکہ ان میں مزید ابلتے گٹروں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ارد گرد کا کچرا اور بلڈنگز کے لوگوں کا اوپر سے باہر پچھلی گلیوں میں ڈھیروں ڈھیر کچرا ، تھیلیاں ، پیمپرز اور تھیلے وغیرہ کا بلا امتیاز دھڑلے سے بے باک ہو کر مستقل بنیادوں پر پھینکنا اور پھر مکر جانا اور پھر ایک دوسرے سے شکایات کرنا کہ صفائی نہیں ہے۔

گندی گلیاں ایسی حالت کی کہ وہاں کتے بلیوں اور دیگر جانوروں کا بسیرا ہو یا پھر ساتھ میں چرسی موالی بھی ہوں ایسا آسیب زدہ علاقہ بن جاتا ہے کہ گذرنا تو ناممکن ہے دیکھ کر بھی دکھ ہوتا ہے ایسی تکلیف ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے ۔ اگر کوئی ہمت کرکے صفائی کروا بھی دے گٹر کے ڈھکن بھی لگوادے تو چرسی موالی وہ بھی چوری کر کے لے جاتے ہیں اور ان کو مزید پر خطر بنا دیتے ہیں کہ کوئی انجانا گزرے مجبوری میں یا ضرورتاً تو اس میں گرمرے یہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہے ؟ کب تک رہے گا ؟ آخر کار سارے محلے والے مسلمان اور الحمد للہ صاحب حیثیت صاحب کردار کہلاتے ہیں پھر ان سب کی موجودگی میں جنکے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، فیشن ایبل ہیں لکھے پڑھے ہیں پھر یہ تضاد کیسا ؟ کیا یہ گلیاں خود بخود بن جاتی ہیں یا انہیں ہم اور آپ بناتے ہیں؟

اگر ہم سب چاہیں تو انکا وجود ہی نہ ہو ہمارا ایمان کا تقاضا کیا کہتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں ؟ پورے ناظم آبا د سمیت کراچی کا یہی حال ہے سوائے چند گنجان علاقوں کی چھوٹی سی آبادیوں کی گلیاں ذرا مجھے صاف نظر آئیںباقی سب کا یہی حال ہے۔ چاہے فیملی پارک ہی کیوں نہ ہوں ۔ بقائی کے پیچھے اور آگے حصے کا فرق دیکھ لیں ۔ آئے دن گندگی کچرا حسین باغ کا بیڑا غرق کیا ہواہے ۔ گندگی کی نحوست مٹ کے نہیں دیتی اوپر سے اوباش جوان لڑکے نوجوان، اسکول کالجز کے فرار بندے ماں باپ کو دھوکا دیکر نہ جانے کیا کچھ دن رات کرتے پھرتے ہیں ۔ کبھی سگریٹ کے کش ، کبھی موبائل پر خرافاتی پیکجز بناتے تو کبھی گالم گلوچ کے ساتھ کھیلتے ہیں موج مستیاں کرتے ہیں ؟ ساتھ ہی ساتھ کچرا بھی کرتے ہیں۔ ساری سیٹیں سلاخیں، گرل توڑ پھوڑ کر برابر کردیئے ہیں۔ لوگ واک تک نہیں کرسکتے ا بھی بقر عید کے بعد وہاں جگہ جگہ اتنا تعفن تھا پھر اب ایک گندی گلی تو مسلسل پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اس میں درخت کے تنے تک پڑے ہوئے ہیں۔

اس کرونا کے عالمی وبا کے باوجود ہم مہذب نہ بنیں باکردار، بااخلاق نہ بنیں ایک دوسرے کو تکلیف دینے سے بعض نہ آئیں تو کیسے ہم چین پائیں ؟ کہاں جائیں ؟ ضرورت ہے کہ والدین اپنا صحیح رول ادا کریں بچوں کو پابند کریں اور خود بھی صفائی کا خیال رکھیں صرف گھر کو صاف رکھنا، خودکو سجانا سنوارنا ہی کافی نہیں ، طہارت کا صحیح شعور دیں۔ یہ ملک ہمارا گھر ہے بڑا گھر ہے اس کی صفائی اور سجاوٹ کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ جب بچوں میں کچرا پھینکنے کی عادت نہ ہوگی تو وہ کسی دوسرے کو بھی کچرا پھینکنے نہ دینگے اور تو اور کچرا چننے والے، سفید کالے تھیلے والے بچے، مرد، گھروں کے باہر رکھی ہوئی پلاسٹک کی تھیلیوں کو تک کھول کر تھیلیاں لے جاتے ہیں اور کچرا پھیلا جاتے ہیں جن پر مکھیاں، بلیاں، پرندے لپکتے ہیں اور یو ں غلاظت کا ایک نیا باب کھل جا تا ہے یا پھر بے ایمانی دیکھیں ماسیاں بھی جمعدارنیاں بھی خود صفائی کرتی ہیں دوسری طرف اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھا جاتی ہے ۔ کبھی کسی گاڑی کے پیچھے نیچے یہاں تک کے اوپر تک تھیلیاں رکھ جاتی ہیںیا پھر گھروں کے باہر گھر والوں نے جو اپنے کچرے کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں۔ ان میں آسانی سے بھرا کچرا ڈال کر چلتی بنتی ہیں یا دوسروں کے گھروں کے کنارے خود رکھکر چلی جاتی ہے ۔ گھر کے سامنے سے جھاڑو لگائیں گی اور کچرا سامنے والوں کے آگے جمع کرجائیں گی۔

خیر میرا فی الحال مسئلہ تو یہ گندی گلیوں کا خودکار نظام تھا جنکی طرف توجہ دلانا اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کروانا اور ایک اچھے سچے مسلم پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت دلوانا تھا۔ انفرادی، اجتماعی، علاقائی کسی بھی سطح پر کام کریں ۔ حکومتی اداروں میونسپل کارپوریشنوں کا تعاون کرنا اور خاص طور پر بلدیاتی اداروں اور علاقہ کونسلروں کو فعال بنانے پر توجہ دلوانا ہی ہمارا مقصد ہے اگر ہمارا گھر ، گھر کا ماحول اردگرد کا ماحول، ہر کسی کے گھر کا ماحول صاف ستھرا ہوگا تو گلیاں صاف ستھری ہونگی ، محلہ پر رونق اور صحت افزا ہوگا اور جب محلے ، شہر ایسے ہونگے تو میرا بڑا سا پیارا گھر بھی حسین تر ہوجائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔ جب ہی تو صحت کا مسئلہ حل ہو گا ، کھیل کود کیلئے چھوٹی پچھلی گلیاں بھی کافی ہوجاتی ہیں۔ آج کل تو ٹریفک کی وجہ سے بچے باہر نہیں کھیل سکتے تو یہی ایک حسین حل ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا کہ راستہ صاف منزل آسان ۔ نہ گند ، نہ گندی گلیاں ، نیتیں صاف، دل صاف، مخلص لوگ، مددگار لوگ آپس میں بھائی بھائی تو کیسے ہوگی کسی کو پریشانی!

اے اللہ ! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے مکینوں کے ساتھ صفائی کو اپنائیں اپنے گھر محلے شہر کو صاف کرتے رہیں۔ تاکہ ہمارے کسی بھی عمل سے ہمارے کسی پڑوسی کا دل نہ کڑھے تو یقینا ہم بھی پرسکون ہونگے ۔ سنا ہے نا “کر بھلا ہو بھلا” تو ہم کب کرینگے ایسا ؟ ہمارے پاس صرف اور صرف ابھی اور آج ہے ۔ مستقبل کس نے دیکھا ہے ؟ ماضی لوٹ کر نہ آئے گا لہٰذا راستے سے کانٹے ہٹائیں ۔ گندی گلیوں کو صاف کرکے بچوں بڑوں کو صاف ستھرا ماحول دے کر انہیں بیماری پریشانی سے بچانے کے ساتھ ساتھ ، کھیل کود اور حسین تعلقات کے مواقع دیں کم از کم سدھار نہ کرسکیں تو مزید بگاڑ نہ کریں کہ یہ ہم سب کا فرض ہے۔