سوالیہ نظریں

“تم میں سے سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا”

وہ مجھ سے بحث کرکے اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔میں بہت دیر تک اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی پھر شاید میری آنکھ لگ گئی تھی کہ فون کی گھنٹی نے مجھے اٹھا دیا۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ یا الہی خیر! اس وقت کون ہے؟

ہیلو۔!!جی، مسز کمال سے بات ہو سکتی ہے؟ جی, میں مسز کمال بات کر رہی ہوں۔اوہ! آپ کے لیے ایک بری خبر ہے ہے، دوسری جانب سے کہا گیا۔

جی! آپ کون ہیں؟ اور کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا اور دوسری جانب سے سے جو کہا گیا وہ میرے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھا۔۔۔۔۔ریسیور میرے ہاتھ سے گر گیا۔

ہیلو! !ہیلو !دوسری جانب سے آواز آرہی تھی مگر مجھ میں مزید ہمت نہ تھی۔ جیسے تیسے ہمت کر کے ایڈریس پر پہنچی جو مجھے بتایا گیا تھا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے بھاگتے ہوئے ایمرجنسی میں پہنچی۔ماحول میں وہی دؤاوں کی مخصوص بو رچی ہوئی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھتی جا رہی تھی کہ ایک پولیس والا نظر آیا

ایکسکیوز می سر! میں مسز کمال، ایمرجنسی سے کال آئی تھی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جی میڈم، میں نے ہی آپ کو کال کی تھی. میں انسپکٹر حمزہ, آپ میرے ساتھ آئیے۔

میں اس کے پیچھے چلتی ہوئی ایک اسٹریچر کے پاس جاپہنچی جو سفید چادر سے ڈھکا ہواتھا ۔انسپکٹر نے آگے بڑھ کر چادر ہٹائی اور بولا! میڈم، ہمیں ان کے بیگ سے آئی ڈی کارڈ ملا تھا جس سے ہمیں آپ کا ایڈریس ملا ہمیں افسوس ہے کہ انہیں بہت بے رحمانہ طریقے سے سے قتل کیا گیا ہے ۔

پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور ضروری کارروائی کے بعد آپ لاش کو گھر لے جا سکتی ہیں۔ انسپکٹر نے پوسٹ مارٹمرپورٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا۔ مگر میں سن کہا ں رہی تھی میں تو اسے ہی دیکھ رہی تھی اور جو راستے بھر دعائیں مانگتی آرہی تھی کہ کاش وہاں “وہ” نہ ہو مگر یوں لگا جیسے میری دعائیں رائیگاں چلی گئیں۔

“وہ” وہی تھی، ہاں وہی، میری پیاری بیٹی، میرے جگر کا ٹکڑا، سفید لباس میں آج صرف اس کا چہرہ ہی نظر آ رہا تھا اسکی آنکھیں کھلی تھیں جن میں نہ جانے کیا تھا کہ میں اسے دیکھ کر نظریں چرانے پرمجبور ہوگئی۔اس کی آنکھوں کی بے چینی مجھے بے چین کر رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے میں نے آنکھیں موند لیں۔

وہ وہی تھی، گلابی فراک میں میں ننھےننھے قدم اٹھاتی میری جانب بڑھ رہی تھی۔ ابھی چلنا سیکھا ہی تو تھا میں ڈرتی تھی کہیں گر نہ جائے۔ دوسرے منظر میں دو پونی بنائے ،بستہ لٹکائے وہ اسکول جانے کے لیے تیار تھی۔اسکول چھوڑ کر آتے ہوئے بھی عجیب لگ رہا تھا مگر میں مطمئن تھی کہ بہت چھان بین کے بعد اس اسکول کا انتخاب کیا تھا جہاں صرف شہر کے متمول گھرانے کے لوگ ہی اپنے بچوں کو بھیج سکتے تھے۔

 پھر اس کا رزلٹ ،فرسٹ گریڈ میں اس نے ٹاپ کیا تھا اس کے بعد ہمیشہ ھی وہ ٹاپ کرتی رہی پڑھائی ،اسپورٹس ہر جگہ آگے۔ وہ واقعی خداداد صلاحیتوں کی مالک تھی۔ اس کا بہترین رزلٹ اور صلاحیتیں مل کر اسے پر اعتماد بنا رہی تھیں۔ ساتھ ہی میری بے حد توجہ۔ میں اس کے لئے ہر چیز بہترین منتخب کرتی تھی۔ بہترین اساتذہ ، بہترین کھلونے نے اور سب سے بڑھ کر میرا پوزیٹیو رویہ۔

 قرآن کی تعلیم بھی اسے بہترین معلمہ سے دلوائی تھی ۔سات سال کی عمر میں ہی اس نے قرآن مکمل کر لیا تھا ۔ وہ بہت ذہین تھی بلکہ معلمہ نے اسے نماز بھی سکھائی تھی۔ مگر بعد میں پڑھائی کی مصروفیات میں میں ایسا الجھی کے نماز اس کے ٹائم ٹیبل میں شامل نہ رہی اور اس کا ٹائم ٹیبل۔ وہ بھی تو میں ہی بناتی تھی۔ وہ میری بہترین دوست تھی اس کی وجہ بھی میرا پوزیٹیو رویہ ہی تو تھا مجھے لگتا تھا کہ میری سوچ بہت “پوزیٹو ” ہے کہ میں نے کبھی عام ماؤں کی طرح اس پر روک ٹوک نہیں کی ۔۔ اس کا لباس ،دوست گھومنا پھرنا۔

شہر کے بہترین لوگوں کے بچے اس کے دوست تھے۔ ظاہر ہے اگر اپر کلاس میں رہنا ہے تو اس کا لباس بھی ان جیسا ہونا چاہیئے تھا بلکہ اس کا لباس بھی تومیں ہی منتخب کرتی تھی۔ یوں ہی ترقی کی منازل طے کرتے وہ کالج میں آ گئی اب اس کی عادتوں اور سوچ میں ضد آتی جا رہی تھی مگر اس میں اچھنبے کی بات نہ تھی کی لبرل طبقہ میں میل جول کا نتیجہ میرے جسم میری مرضی کی صورت میں ہی نکلنا تھا

یہاں پہلی بار میرے دل کو کچھ ہوا تھا۔ جو بھی تھا وہ میرا اثاثہ تھی۔ اس دن مجھے پہلی بار لگا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جب میں نے اسے عورت مارچ میں پلے کارڈ اٹھائے دیکھا۔ مگر شاید اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ میرے سمجھانے کا جواب “میری مرضی” کی صورت میں آنے لگا تھا مگر یہ میری ہی تربیت تھی۔

 مگر کہاں! تربیت کا تو وقت ہی نہیں ملا مجھے۔ میں تو صرف اسی تگ و دو میں رہی کہ اسے بہترین گھر، بہترین لباس ،اور آسائشیں دے سکوں۔ ان سب میں تربیت کہاں رہ گئی مجھے خود بھی پتا نہ چل سکا ۔ آنسو میرے گالوں پر پھسل گئے بلکہ نہیں وقت میرے ہاتھ سے پھسل چکا تھا ۔ میں نگہبان تھی۔ وہ تو معصوم تھی۔ میں نے اسے کیا دیا ؟ میں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اس کی “سوالیہ نظریں” میرے چہرے پر جمی تھیں اور ان میں موجود سوال مجھے لمحہ لمحہ ڈس رہے تھے۔