قائدِ اعظم ایک دیانتدار اور اصول پسند لیڈر تھے جیسا وہ پاکستان چاہتے تھے ان کی رحلت کے بعد ویسا نہ بن سکا ،ہندووں اور انگریزوں سے تو آزادی حاصل کر لی پر یہاں کے جاگیرداروں اور چوہدریوں سے یہ ملک چھٹکارہ حاصل نہ کر سکا، انہوں اس ملک کا وہ حال کردیا کہ اللہ معافی اور بچا کچا برا حال ملک کے ایک بڑے ادارے نے کر دیا حرام حلال کی تمیز ہی ختم ،انصاف کا بول بالا ہی نہیں۔
قائد کا تصور پاکستان محض نصابی باتیں اور علمی مباحث ہیں نہ قوم بانئی پاکستان کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی وہ ایسی جماعتوں یا گروہوں کی حمایت کرتی ہے جو قائد اعظم کے پاکستان کو ان کے خواب کے مطابق اسلامی،فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے میں مخلص ہیں۔
اے قائد ہم آپ کو کیا جواب دیں گے کیونکہ آپ نے پاکستان وڈیروں اور جاگیر داروں کے لیے نہیں بنایا تھا یہ ملک غریب عوام کے لیے بنا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ پاکستان میں انسانی مساوات،جمہوریت، اسلامی عدل،قانون کی حکمرانی اور معاشی انصاف ہو مگر اے قائد پاکستان میں تو انسانی زندگی سب سے ارزاں شے ہے،یہاں انسان کیڑے مکوڑوں کی مانند مرتے ہیں،کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ انسانی حقوق کی انجمنیں سڑکوں پر آتی ہیں اور نہ منتخب اراکین اسمبلی دکھ درد کا اظہار کرتے حکومت نام کی شے صرف حکمرانوں،سیاستدانوں اور بالائی طبقوں کی خدمت اور حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے۔
میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں ہر شعبے اور اداروں میں کڑوروں روپے کی رشوت دے کر جاب ملتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے بجائے جاہل جٹ کو عمدہ عہدوں سے نوازہ جاتا اور ہمارے اچھے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک سدھار جاتے اور جو یہاں رہتے وہ پرائیویٹ جاب کرتے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا خان سفارش خان ہے جس کی ضرورت سرکاری ہسپتال سے لے کر قانونی سہولت حاصل رہتی ہے،اپ نے قائد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد جو مشہور زمانہ تقریر کی تھی اس میں پاکستان سے سفارش کلچر،دھونس،کنبہ پروری اور ذخیرہ اندوزی کو ختم کرنے کے عہد کا اعلان کیا تھا لیکن افسوس کہ ہر آنے والا حکمران باتیں تو تبدیلی کی کرتا ہے مگر ان پر عمل نہیں کرتا،اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کر کے ہر قدم پر قانون و آئین کی حکمرانی کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔عوام بھی اپنا کردار ادا کریں ،ان کو یہ بات سوچنا چاہیے کہ ان کے آباؤ اجداد نے جس طرح قائد کی قیادت میں انگریز جیسے جابر حکمرانوں کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکا دیا تھا اور ہندوؤں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا تو آج بھی یہ اپنی طاقت استعمال کر سکتے ہیں،مگر یہ تو بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہے۔
“عوام یہ سمجھ لیں کہ فرشتوں ان کی مدد کو نہیں اترے گے”قائد اعظم کی رحلت کے بعد سے لیکر اب تک کوئی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے جس کو امارت ملی اس نے سوائے لوٹنے کے کچھ نہیں کیا یہ صرف اللہ کا احسان ھے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک جس کی پیدائش ستائیسویں رمضان المبارک ھے قائم و دائم ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔